مہدی رضوی
سنسان سڑکیں، ویران اسکول، آن لائن کلاسیں اور جنازے، یہ ہے اٹلی کا ’نیا نارمل‘۔ اطالوی لوگ جو کبھی ملنے ملانے، کھانے پینے اور گھومنے پھرنے کے دلدادہ تھے، اب اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں جیسے یہ ہمیشہ سے ہی ایسے ہوں۔ صرف دو مہینوں میں کروناوائرس کے دوتین متاثرین سے شروع ہونے والی یہ وبااب بانوے ہزار لوگوں کو متاثرکرچکی ہے اور دس ہزار سے زیادہ لوگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں لیکن عوام اور حکومت نے ہار نہیں مانی ہے۔ آج بھی لوگوں کے گھروں اور بالکونیوں سے گیتوں اور ترانوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ کچھ علاقوں میں تو ڈھلتے سورج کے ساتھ ہی پورا محلہ اپنے گھروں کی بالکونیوں میں نغمے گاتا نظرآتاہے۔
اٹلی میں نظام زندگی رکا نہیں، بدل گیاہے۔ لاک ڈاؤن کے ایک ہی ہفتے بعد یونیورسٹیز نے کلاسیں آن لائن کرلی ہیں اگرچہ اسکولوں کو ایسا کرنے میں کچھ وقت لگا مگر اب تمام تعلیمی ادارے آن لائن ہی پڑھارہے ہیں۔ اساتذہ اپنے شاگردوں کو مصروف رکھنے کے لئے نت نئے طریقے ڈھونڈرہے ہیں۔ میری بیٹی کی اسکول لائبریرین روزانہ ایک کہانی وڈیوکے ذریعے اپنی کلاس کوسناتی ہے۔ اگرچہ مئی میں اسکول کھولنے کا اعلان ہوا ہے لیکن لوگوں کا خیال یہی ہے کہ اب تعلیمی ادارے گرمیوں کی تعطیلات کے بعد ستمبر میں ہی کھلیں گے۔
میوزیم اور آرٹ گیلریاں تو بند ہی ہیں لیکن ان کے آن لائن ورچوئل ٹورز کھلے ہیں اور مصوری سے لے کر فوٹوگرافی تک ہر قسم کے مقابلوں کا اہتما م جاری ہے۔ سوشل میڈیاپر’ثقافت رک نہیں سکتی‘ہیش ٹیگ ٹرینڈ ہورہاہے۔ اگرچہ اٹلی کے پڑوسی ملکوں نے اس کا اس طرح ساتھ نہیں دیا جس طرح اطالوی حکومت کو امید تھی مگر عوام نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ جب ہسپتالوں میں ونٹی لیٹرز کی قلت ہوگئی تو انجینئروں نے وینٹی لیٹر کے پرزے اور پلاسٹک کے ماسک مفت بانٹنا شروع کردئے بلکہ تیراکی اور سنورکلنگ کے ماسک بھی ونٹی لیٹرمیں استعمال کے قابل بنائے جانے لگے۔ سماجی ہم آہنگی کا تو یہ عالم تھا کہ جب حکومت نے تین سو ڈاکٹروں سے متاثرہ علاقوں میں جانے کی استدعا کی تو پانچ ہزار نے اپنی خدمات پیش کردیں۔
دوسرے ممالک کے مقابلے میں اٹلی میں شرح ِاموات اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہاں بڑی عمر کے افرادکا تناسب بھی بہت زیادہ ہے اور تیئس فیصد آبادی کی عمر 65 یا اس سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود اطالوی نظامِ صحت، جس کی بنیاد سوشلسٹ اصولوں پر رکھی گئی، نے ان گنت لوگوں کی زندگی بچائی ہے۔ اگریہاں بھی سرمایہ دارانہ طرز کا، منافع پر مبنی، نظامِ صحت ہوتا تو ملک کی بیشتر آبادی کے پاس ہسپتالوں میں داخلے کی استطاعت تک نہ ہوتی۔
امریکہ کے برعکس جہاں اشیائے ضرورت کے حصول کے لئے بھگدڑ جیسی صورتِ حال نظرآتی ہے، اٹلی میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ سپر مارکیٹس کھلی ہیں اور چند چیزوں کے علاوہ روز مرہ کی تمام اشیا دستیاب ہیں۔ جہاں پاکستان سمیت دوسرے ملکوں میں اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، وہاں اٹلی میں کھانے پینے کی اشیا میں پچاس فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
یاد رہے شروع میں دوسرے ملکوں کی طرح اٹلی نے بھی اس وبا کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ لومباردیہ کاصوبہ، جہاں اس وبا نے سب سے زیادہ تباہی پھیلائی، عوام الناس نے فٹ بال سے لیکر میلے اور عوامی اجتماعات جاری رکھے۔ 19 فروری کو صوبے کے دارالحکومت میلان میں چالیس ہزار تماشائیوں نے شہرکی سڑکوں پر رات گئے اپنی فٹبال ٹیم کی جیت کا جشن منایا۔ کچھ ہفتوں میں ہی میلان سمیت پورا صو بہ بری طرح اس وبا کی لپیٹ میں آچکا تھا۔
بھاری جرمانوں اور گرفتاری کے اعلانات کے باوجود یہاں اب بھی کچھ لوگ اپنی اور دوسروں کی زندگی خطرے میں ڈال کر باہر نکل آتے ہیں۔ کھانے پینے اور فارمیسی کے علاوہ تمام دکانیں بند ہیں اور ان دکانوں پربھی لوگوں سے ایک میٹر کا فاصلہ رکھنا ضروری ہے۔ ان سخت اقدامات کے باوجود اٹلی میں اس وبا پر قابو پانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
ان حالات کے باوجود اٹلی نے جس طرح اس وبا کا مقابلہ کیا وہ دوسرے ملکوں کے لئے بھی سبق آموز ہے۔ اطالوی عوام کے پاس دوسرے ملکوں کیلئے ایک ہی پیغام ہے کہ وہ ہماری غلطیوں کو نہ دہرائیں اور اس صورتِ حال کاسنجیدگی سے تجزیہ کرکے جتنا جلدممکن ہو لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کریں۔
اگرچہ اس بحران نے ملک کی اقتصادی حالت کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور وبا کے بعد بھی اس میں بہتری کی امید کم ہی نظر آتی ہے، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اطالوی قوم، اس کے ڈاکٹروں، انجینئروں اور اساتذہ سب نے یہ بات ثابت کی ہے کہ اٹلی ایک زندہ قوم ہے۔
Mehdi Rizvi
مہدی رضوی اٹلی میں ایک پاکستانی محقق ہیں جو فری یونیورسٹی آف بولزانو میں ہیومن ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کررہے ہیں۔ ان کی تحقیق کا مقصد ٹیکنالوجی کے صارفین کی عادات کو بدلنے کی بجائے ٹیکنالوجی کولوگوں کی عادات کے مطابق تبدیل کرنا ہے۔ وہ دیگر پاکستانی محققین کے ہمراہ کرونا وائرس پر ایک اردو ویب سائٹ کے اجرا پربھی کام کررہے ہیں۔