صائمہ ضیا / فاروق طارق
ملک میں جاگیردارانہ نظام کے باوجود چھوٹے کسان اور زمیندار ایسی کوششوں میں مصروف ہیں جن سے وہ نہ صرف اپنی زراعت بہتر کر سکیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے استحصال کے خلاف بھی کھڑے ہو سکیں۔ ملک کی 22 فیصد زمین جاگیرداروں کے کنٹرول میں ہے، یہ طبقہ سرمایہ داروں کے ساتھ مل کے ملک کی معیشت اور سیاست کو کنٹرول کئے ہوئے ہے۔
مگر اب چھوٹے زمین داروں، کسانوں اور کاشتکاروں نے اپنے طور پر اس کا متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ان جاگیرداروں کے خلاف آواز بلند کئے بغیر ایک نئی طرز کی کاشتکاری میں مصروف ہیں۔ جس سے جاگیرداروں کے علاوہ زرعی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بھی بڑی تکلیف ہو رہی ہے۔ وہ ان کے طریقوں پر کام کرنے کی بجائے قدرتی طرز کاشتکاری کو اپنا رہے ہیں اس کی ایک مثال عبدالرزاق کی ہے۔
عبدالرزاق چک مودہو داس، منڈی فیض آباد ضلع ننکانہ صاحب کا ایک چھوٹا کاشتکار ہے، وہ پنجاب میں ”پائیدار قدرتی نظام کاشتکاری“ (پقنک) کو فروغ دینے والے کاشتکاروں کی اولین صف میں ہے۔
حال ہی میں انکے گاؤں جا کے اس طریقہ کاشتکاری کی عملی شکلیں دیکھنے کو ملیں۔
تعارف ’پقنک‘
اس نظام کے تحت کسانوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کھیتوں میں بیڈ بنا کر جو بھی فصل لگانا چاہیں لگائیں۔ اس سے پانی کی کافی بچت ہوتی ہے۔
کاشتکاروں کو کھادوں اور دوائیوں کے استعمال سے روکا جاتا ہے، انہیں بیج ”چھٹا لگانے“ کی بجائے ایک چھوٹے پلانٹر سے لگانے کی ترغیب دی جاتی ہے، انہیں گھاس پھوس کو زمین میں پھیلا کر رکھنے کا کہا جاتا ہے، تاکہ کاشتکاری والی زمین ننگی نہ رہے اور وہ گرمی سے جھلس نہ جائے اس کے علاوہ یہ گلی سڑی گھاس پھوس اسے پانی کو بھی زیادہ دیر رکھنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ انہیں قدرتی طرز کاشتکاری کو اپنانے کا کہا جاتا ہے۔
اس نظام کاشتکاری کو متعارف کرانے والوں میں میاں آصف شریف شامل ہیں۔ انہوں نے دہائیوں کی ریسرچ کے دوران چھوٹے کاشتکاروں اور زمین داروں کے فصل لگانے میں اخراجات کم کرنے اور یوں ان کی آمدن بڑھانے کے طریقوں پر غور کرنا شروع کیا۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ زہریلی ادویات اور کھادوں کے بہت زیادہ استعمال سے زمین تباہ ہو رہی ہے، موسمی تغیرات سے زندگی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے، اخراجات بہت زیادہ ہیں آمدن کم ہے۔
میاں آصف شریف بھارت میں کسانوں کی خودکشیوں کے بڑھتے واقعات کو پاکستان میں دھرائے جانے کے امکانات سے خوف زدہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر ”پائیدار قدرتی نظام کاشتکاری“ (پقنک) کو متعارف کرایا۔
انہیں اور اس نظام کو متعارف کرانے میں چھوٹے زمینداروں اور کسانوں کی تنظیم ”پاکستان اخوت کسان“ نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ ان کے لیکچرز ریکارڈ کئے گئے اور یو ٹیوب پر چھوٹے کاشتکاروں میں متعارف کرائے گئے۔ بے شمار واٹس اپ گروپوں کے ذریعے کسانوں میں ’پقنک‘ کو متعارف کرایا گیا۔ یہ سب 2009ء کے بعد شروع ہوا مگر اس کو زیادہ پذیرائی 2015ء سے اب تک ملی ہے۔ ابتدائی طور پر ان کا مذاق اڑایا گیا۔ مگر اب ہزاروں کسان اس طریقہ کار پر اپنی کاشتکاری منتقل کر چکے ہیں۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے بھی 2017ء سے اس طریقہ کار کو چھوٹے کاشتکاروں، زمینداروں، بے زمین کسانوں، مزارعوں اور ہاریوں میں متعارف کرنا شروع کیا۔ پاکستان فارمرز فورمز کا انعقاد کیا گیا، میاں آصف شریف کے لیکچرز کو کسانوں کے اجتماعات میں کرانے کا اہتمام کیا گیا۔
2018ء کے آغاز میں میاں آصف شریف نے کسان رابطہ کمیٹی کی نمائندگی کرتے ہوئی کھٹمنڈو (نیپال) میں کسانوں کی عالمی تنظیم ’لا ویا کمپیسینا‘ کے مشاورتی اجلاس میں کسانوں کے عالمی چارٹر کی تیاری میں حصہ لیا۔ اس چارٹر کو 2018 ء کے دسمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔ پاکستان نے بھی اس کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
عملی مشاہدہ
ہم نے عبدالرزاق کے گاؤں جا کر اس کا عملی مشاہدہ کیا۔ ہم اس سال کے آغاز میں بھی پنڈی بھٹیاں میں سلطان بھٹی کے فارم پر جا کر اس کی عملی افادیت سے آگاہ ہو چکے تھے۔ مگر اب اس جگہ جا کر اور اگاہی ہوئی۔ عبدالرزاق کو کرافٹر فاؤنڈیشن کے تعاون سے بیڈ بنانے والی اور بیج لگانے والی مشینیں ملی ہوئی تھیں۔ بیڈ بنانے والی مشین تو ٹھیک کام کر رہی تھی مگر پلانٹر مشین میں کچھ مزید تبدیلیاں لانے والی ہیں۔
عبدالرزاق کا یہ تجربہ انکے امرود کے باغ میں کافی کامیاب ہے۔ باغ کو ایک سال سے کوئی کھاد یا زہریلی زرعی داوئی نہیں دی گئی، کوئی گوڈی نہیں دی گئی۔ باغ کے اندر کئی سبزیاں لگی ہوئی تھیں ان میں گھیا کدو بھی شامل تھا اور زبردست نتیجہ تھا۔ پھل جاندار تھا۔
عبدالرزاق کا اس طریقہ کاشتکاری سے مونجی لگانے کا تجربہ ابھی کامیاب نہیں ہوا۔ مگر وہ پرامید ہیں کہ اس کو بھی وہ کامیاب کریں گے۔
انہوں نے بیڈز بنائی زمین پر گلی سڑی گھاس پھوس کھیتوں میں بچھائی تھی اس میں گنا بھی لگا تھا اور کئی سبزیاں بھی، ہم کوئی دو گھنٹے ان کے گاؤں میں اس کاشتکاری کے نئے تجربہ کے مثبت اثرات کا مشاہدہ کرتے رہے۔
جن چھوٹے کسانوں نے اس تجربے کو اپنایا ہے وہ اب اس کا پھل کاٹ رہے ہیں ان کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی زہر آلود دوائیوں سے نجات مل گئی ہے، کھاد کا استعمال ترک کر دیا گیا ہے۔ مقامی بیج لگانے کی ترغیب سے ان کی بیج کی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے جان چھوٹ گئی ہے۔ اور بیج انتہائی کم استعمال ہو رہاہے، یعنی ان کے اخراجات کم ہوئے ہیں اور آمدنی اس لحاظ سے بڑھ گئی ہے۔ یہ ایک قسم کی خاموش بغاوت ہے جو چھوٹے کسانوں نے زراعت میں نیو لبرل ایجنڈے کے اطلاق کے خلاف کی ہے، وہ ریاست سے سبسڈیز نہیں مانگ رہے بلکہ زرعی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کھادوں، زرعی زہروں اور ہائبرڈ بیجوں سے نجات حاصل کر کے اپنا خیال خود رکھ رہے ہیں۔