یان شائیکوسکی
ترجمہ: فاروق سلہریا
گیرتھ جونز (فلم میں یہ کردار جیمز نورٹن نے نبھایا) ویلز سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے اکیڈیمک اور صحافی ہیں جو اپنے کام سے بہت مخلص ہیں۔ ان کی خدمات کچھ دیر کے لئے برطانوی سیاستدان لائڈ جارج نے وزارتِ خارجہ کے لئے حاصل کیں۔
روسی زبان پر عبور رکھنے والے جونز نے مارچ 1933ء میں ماسکو کا سفر کیا۔ وہ بطور فری لانس صحافی سٹالن کا انٹرویو کرنا چاہتے تھے۔ ماسکو میں علاوہ اور لوگوں کے ان کی ملاقات نیو یارک ٹائمز کے والٹر ڈورانٹی سے ہوتی ہے۔ ڈورانٹی نیویارک ٹائمز کے ماسکو میں قائم بیورو میں بیورو چیف ہیں۔ بطور صحافی ڈورانٹی کو ایک سٹار مانا جاتا تھا اور فلم میں وہ ایک ایسے بد عنوان اور زوال پذیر صحافی کے طور پر سامنے آتے ہیں جو سٹالنزم کا دفاع کرتا دکھائی دیتا ہے۔
ماسکو پہنچنے پر جونز کو یوکرین بارے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہاں حالات بہت خراب ہیں اور یہ کہ یوکرین جانا بھی ممکن نہیں۔ اسے بند کر دیا گیا ہے۔ ڈرامائی انداز میں جونز کسی طرح اکیلے ہی یوکرین پہنچ جاتے ہیں۔ یوکرین میں انہوں نے جو مناظر دیکھے وہ ناقابلِ بیان تھے۔
فلم میں جو یوکرین کی مختصر سی جھلک نظر آتی ہے اسے سرئیل اسٹ (Surrealist) ہی کہا جا سکتا ہے: قحط کے مارے لوگ، ہر طرف بکھری لاشیں، یتیم بچے جن کا کوئی پرسان حال نہیں، آدم خوری…
فلم اس بحث میں کم ہی پڑتی ہے کہ یہ آفت سٹالن کی سیاست کا نتیجہ تھی یا یوکرین کی لوٹ مار کا جسے ’یورپ کا ذخیرہ خوراک‘کہا جاتا تھا۔ قحط کا شکار لوگوں کو اس تجزئے سے فرق بھی کیا پڑتا۔ 1932-33ء کے دوران یوکرین میں لاکھوں لوگ قحط کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئے۔
گیرتھ جونز یوکرین سے زندہ بچ نکلے۔ جیل تو ہوئی مگر جلد ہی اس شرط پر رہا کر دیا گیا کہ وہ برطانیہ واپسی پر زبان بند رکھیں گے اور یوکرین کا ذکر نہیں کریں گے۔ ساتھ ہی ماسکو میں چھ برطانوی سفارت کاروں کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ ان کی گرفتاری کے ذریعے جونز کو خاموش رہنے پر مجبور کیا جا سکے۔
لندن واپسی پر جونز نے خاموش رہنے سے انکار کر دیا اور یوکرین بارے اپنے مشاہدات بیان کرنے شروع کر دئے۔ کسی نے بھی البتہ جونز کی بات پر کان نہیں دھرے۔ ادھر، دورانٹی نے جنہیں مغرب میں روسی معاملات پر سب سے بڑا مبصر سمجھا جاتا تھا، یوکرین میں قحط کی خبروں کی تردید کر دی۔
برطانیہ، جس کے ماسکو سے تازہ تازہ اچھے تعلقات قائم ہو رہے تھے، روس میں اپنی سرمایہ کاری کے پیش ِنظر ان تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ایسی ہی وجوہات کے پیشِ نظر امریکہ بھی یوکرین کے قحط پر خاموش رہا بلکہ اُس سال کے آخر تک صدر روز ویلٹ نے ماسکو کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے۔ کسی بھی تنقید سے بچنے کے لئے ڈورانٹی کی رپورٹنگ کو بیساکھی بنایا گیا۔
برطانیہ واپسی پر جن لوگوں سے جونز کی ملاقات ہوتی ہے ان میں ناول نگار جارج اورویل بھی شامل ہیں۔ جارج اورویل اس وقت تک سویت یونین بارے کچھ خوش فہمیاں رکھتے تھے۔ فلم میں کچھ مناظر ایسے ہیں کہ جہاں ’انیمل فارم‘ کے اقتباس پیش کئے گئے ہیں۔ ’انیمل فارم‘ 1945ء میں شائع ہوا۔ اس ناول میں سوویت یونین میں سٹالن کے دور میں ہونے والی زوال پذیری کی منظر نگاری کی گئی ہے۔
1945ء تک جونز کی موت ہو چکی تھی۔ 1935ء میں انہیں ایک ڈاکو نے اُن کے دورہ چین کے دوران ان کی 30 ویں سالگرہ سے ایک دن پہلے قتل کر ڈالا۔ قتل بارے یہ شبہات پائے جاتے ہیں کہ یہ سوویت روس کی خفیہ ایجنسی نے کروایا تھا۔