فاروق طارق
گذشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے دوکانیں، بازار اور کارخانے کھولنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا جب ملک میں کرونا کے پھیلنے کی رفتارتیز ہو رہی ہے۔ تمام رحجانات یہ بتا رہے ہیں کہ کرونا وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔
وہ یورپ کی غلط مثالیں دے رہے ہیں کہ انہوں نے اتنے افراد کی ہلاکت کے باوجود نرمی کی ہے۔ یورپ میں تھوڑی سی نرمی اس وقت کی جا رہی ہے جب کرونا سے اموات کے رحجانات نیچے کی طرف جا رہے ہیں جبکہ پاکستان میں یہ الٹ ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ وہاں کے سماجی حالات پاکستان سے بہت مختلف ہیں۔ یہ موازنہ ہی غلط ہے۔ پاکستان کو اپنے حالات کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے۔ یہاں کی حکمت عملی کے لئے ایران، برازیل، انڈونیشیا یا بھارت جیسے ممالک کا جائزہ لینا ہو گا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔
کرونا ایک بالکل نئی طرح کا چیلنج ہے۔ اس لئے لاک ڈاؤن کا فیصلہ سیاسی نہیں ہونا چاہئے۔ یہ فیصلہ بیوروکریٹس نہ کریں۔ یہ فیصلہ ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی مرضی کے مطابق ہونا چاہئے۔ اس وقت سب سے زیادہ اہمیت جان بچانے کی ہونی چاہئے۔ پاکستان بھر کے کام کرنے والے ڈاکٹرز، پیرا میڈکس اور ان کی تنظیمیں سخت لاک ڈاؤن کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اور اس وقت سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کا کام ہے کہ وہ اس بحرانی کیفیت میں معاشی طور پر لوگوں کا خیال رکھیں۔
عمران خان لاک ڈاؤن کی مخالفت میں اکثر غریبوں کے حامی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ادھر پاکستان کی مالیاتی رپورٹ یہ بتا رہی ہے کہ یہ حکومت ابھی بھی اپنے قرضے واپس کر رہی ہے۔ مزدوروں کا اتنا خیال ہے تو غیر ملکی قرضہ جات ادا کرنے سے انکار کر کے، مزدوروں کو ماہانہ کم از کم تیس ہزار روپے معاوضہ دیا جائے۔
ہم سیاسی کارکن ہیں اور ہم کوئی کرونا کے ایکسپرٹ نہیں ہیں مگر ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کرونا سے اموات میں مسلسل اضافہ اور اس کے مریضوں کی تعداد روزانہ بڑھ رہی ہے۔ یہ اس کے باوجود ہو رہا ہے کہ حکومت مناسب تعداد میں ٹیسٹ نہیں کر رہی۔
اس لئے ہم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ محنت کشوں کی معاشی ضمانت کے ساتھ سخت لاک ڈاؤن کیا جائے۔ پہلے بھی لاک ڈاؤن کے نام پر مذاق کیا گیا تھا۔ اب تو حکومت نے لاک ڈاؤن کھول دیا ہے۔ یہ فیصلہ تاجروں اور سرمایہ داروں کے دباؤ تلے کیا گیا۔ پہلے مولویوں کا دباؤ تھا اب تاجر ان پر سوار ہیں۔ لاک ڈاؤن کھولنے سے ہلاکتوں میں تیزی آ سکتی ہے وہ جنہیں زندہ رہنا تھا، وہ شائد اب اس فیصلے کی نذر ہو جائیں۔
ہم اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اول: ڈاکٹروں، میڈیکل ماہرین، سائنس دانوں اور پیرا میڈکس کے نمائندوں کی ایک کمیٹی بنائے جائے جو کرونا بارے پالیسی بنائے۔ حکومت اس ایکسپرٹ کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد کرائے۔ حکومت کا کام اس مسئلے پر پالیسی سازی کی بجائے پالیسی پر عمل کرانا ہو۔
دوم: غیر ملکی قرضوں کی واپسی کا اگر انکار نہیں کر سکتے توکم از کم فریز کیا جائے (ہمارا مطالبہ ہے قرضوں کی واپسی سے انکار کیا جائے)۔ بجٹ میں کم از کم دس فیصد صحت اور بیس فیصد اس بحران سے نپٹنے کے لئے محنت کشوں کے لئے مختص ہو۔ بے روزگار ہونے والے افراد کو، بعض دیگر ممالک کی طرح، کم از کم ماہانہ تیس ہزار روپے آئندہ چھ ماہ تک دئے جائیں۔ چھ ماہ بعد اس پالیسی پر، نئے حالات کی روشنی میں، نظر ثانی کی جائے۔
سوم: معیشت بحال ہو سکتی ہے مگر انسانی جانیں ضائع ہو جائیں تو ان کی واپسی ممکن نہیں۔ اول ترجیع انسانی جانیں ہونی چاہئیں۔ سرمایہ دار طبقے کے مفادات پر مبنی معیشت نہیں۔ اس لئے لاک ڈاون ختم کرنے کا فیصلہ فوراً واپس لیا جائے۔ یہ کروڑوں انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔