ایوب ملک
مشہور مارکسی دانشور انتونیو گرامچی سماج کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ وہ ایک حصے کو پولیٹیکل سوسائٹی اور دوسرے کو سول سوسائٹی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پولیٹیکل سوسائٹی میں فوج، پولیس، بیوروکریسی اور ایسے ادارے شامل ہوتے ہیں جنہیں قانونی طور پر ریاستی طاقت حاصل ہوتی ہے جبکہ اس کے برعکس سول سوسائٹی کی طاقت اس کی اخلاقیات ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی میں یونیورسٹیاں، کالج، ٹریڈ یونین، ادبی تنظیمیں، صحافتی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں شامل ہوتی ہیں۔ گرامچی لکھتے ہیں کہ صرف وہی سماج ترقی کرسکتا ہے جہاں سول سوسائٹی ہر وقت پولیٹیکل سوسائٹی کے خلاف نبرد آزما رہتی ہے۔ گرامچی مزید لکھتے ہیں کہ دانشور صرف اور صرف سول سوسائٹی کا حصہ ہوتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی ساری زندگی گرامچی کی سماج کے متعلق تعریف کی عملی تعبیر ہے۔ آج جب ریاستی ادارے اور حکومت اٹھارویں ترمیم اور صوبائی خودمختاری پر حملہ آور ہونے کو ہے تو عاصمہ جہانگیر کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔
دنیا کے دوسرے سماجوں کی طرح یورپ کا عروج تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے ہمیں اُن تحریکوں کا ادراک بہم پہنچتا ہے جنہوں نے اُس سماج کو پسماندگی، تہمات اور تنگ نظری سے آزاد کراکے سیاسی اور سماجی طورپر باعزت مقام دیا۔ یورپین سماج کے علمی ادارے اور یونیورسٹیاں بھی اسی تنگ نظری کے زیراثر رہیں جس کی وجہ سے معاشرے کی تخلیقی ذہنیت اور صلاحیتیں مسدود ہو کر رہ گئیں تھیں۔ 1633ء میں گیلیلیو کو اس جرم پر کہ وہ سورج کو کائنات کا مرکز مانتا ہے مجرم ٹھہرایا گیا۔ فرانس میں ایک راہب کواس لیے زندہ جلادیا گیا کہ اس نے پاٹووویونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد معجزوں کو ماننے سے انکار کردیاتھا۔ فرانس کے مشہور فلسفی ڈیکارٹ کی موت پر اس کی تعریف میں کسی تقریر یا تقریب کی اجازت نہیں دی گئی اور یہاں تک کہ پیرس یونیورسٹی میں فلسفے کی تعلیم 1750ء تک ممنوع تھی۔ 1618ء سے لے کر 1648ء تک 30 سالہ شدید جنگ فرقہ واریت کی بنیاد پر لڑی گئی جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔
اس جبر کے خلاف دانشوروں کی قربانیوں کے نتیجے میں فکر کی آزادی حاصل ہوئی تو سائنسی علوم کو فروغ ملا۔ دراصل ان دانشوروں نے سائنسی طریقہ کار سے مختلف حقیقتوں کی تلاش کی تاکہ فرد کی خوشی اور آزادی کو حاصل کیا جا سکے۔ عاصمہ جہانگیر انہی دانشوروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستانی سماج کے تما م دشمنوں کو بے نقاب کرتی رہیں جن میں سولین و ملٹری بیوروکریسی، عدلیہ، سیاستدان، جاگیردار، سرمایہ داراور وہ تمام نام نہاد دانشوربھی شامل ہیں جنہیں ریاستی اداروں سے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔ فیض صاحب لکھتے ہیں کہ”اب دانشوروں کو سماجی تبدیلی کے حصول کے لیے صرف مشاہدے ہی کی نہیں بلکہ مجاہدے کی بھی ضرورت ہے۔“ عاصمہ جہانگیرفیض صاحب کے اس تخیل کی عملی مثال تھی۔ اہ ایک ایسی فلاحی اور جمہوری ریاست کی خواہاں تھیں جہاں امیر اور غریب کا نہ صرف فرق ختم ہو بلکہ انصاف کی فراہمی بھی سب کو میسر ہو، جہاں مظلوم طبقات اور محکوم قوموں کو ریاستی ادارے نہ صرف برابر کے شہری سمجھتے ہوں بلکہ تمام وفاقی اکائیوں کے درمیا ن وسائل کی تقسیم بھی منصفانہ ہو، تاکہ عوام اور ریاست کے درمیان ایسا رشتہ استوار ہو جو ماں اور بچوں کے درمیان ہوتاہے۔
وہ سمجھتی تھیں کہ جمہوریت کے ثمرات عام لوگوں تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک قومی سلامتی کے بیانئے کو فلاحی ریاست کے بیانئے میں تبدیل نہ کردیاجائے۔ ان کی ساری جدوجہد کا مطمع نظر اصولوں کی سربلندی رہا ہے نہ کہ شخصیت پرستی۔ بے نظیر ہو، نواز شریف ہو، زرداری ہو یا اعلیٰ عدلیہ کے ججز ہوں یا کوئی جنرل ہو جنہوں نے بھی اصولوں سے روگردانی کی عاصمہ نے ان کا محاسبہ کیا، یہ سوچے بغیر کہ ان کے اس محاسبے کی تحریک کو عوامی پزیرائی حاصل ہے کہ نہیں۔ لاپتہ افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف مسلسل آواز اٹھانا، بلوچستان کے عوام کی جمہوری اور آئینی حقوق کا مطالبہ اور غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ان کی زندگی کا شعار رہاہے۔ عاصمہ کا یہ جملہ کہ ”اگر اعلیٰ عدلیہ 184(3)کے ذریعے قومی سلامتی کے اداروں کی حاصل کردہ زمینوں کا تخمینہ لگا سکے تو میں ان کو ناک کے بل سلام کروں گی“۔
صاف ظاہر ہے یہ بیان صرف وہ شخص دے سکتا ہے جس کے دونوں پاؤں زمین پر ہوں اوروہ غاصب کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر بات کرنے کی جرات رکھتا ہو۔ مجھے یقین ہے کہ جب کوئی آزاد مورخ پاکستانی تاریخ لکھے گا تو اس میں عاصمہ کا نام سماجی تبدیلی کے محرکوں میں سنہری حروف میں سب سے اوپر لکھے گاکیونکہ عاصمہ جہانگیر جیسے دانشوروں کی نہ صرف عملی زندگی سماجی تبدیلی کی محرک ہوا کرتی ہے بلکہ ان کے جنازے بھی بہتر سماج کے حصول میں معاون ہوا کرتے ہیں۔ جس تعلیم کا پرچار عاصمہ اپنی پوری زندگی کرتی رہیں اس کی عملی مثال ان کے جنازے میں بھی دیکھنے میں آئی جہاں مردو خواتین نے رنگ، نسل، عقیدے سے ماورا ایک ساتھ کھڑے ہو کر ان کے حق میں دعائے مغفرت کی۔
جو لوگ آج عاصمہ پر تنقید کر رہے ہیں انہوں نے پاکستانی تاریخ کا مطالعہ ریاستی بیانئے ہی کی نظر سے کیا ہے۔ حب الوطنی کا معیار اسی سوچ کے تحت قائم کیا۔ دو قومی نظریے کی آڑ میں ریاستی اداروں نے نہ صرف غدارِ وطن اور بھارت نواز جیسے استعارے ایجاد کیے بلکہ بعض اصطلاحات پر انہی نعروں کے ذریعے قبضہ بھی کر لیا جس میں خاص طورپر ”سیکولرازم“ کی اصطلاح کو غیر اسلامی زمرے میں لاکھڑا کرنا ہے۔ حالانکہ یہی مذہبی جماعتیں پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی ہندوستان میں سیکولرازم کا مطالبہ کرتی رہی ہیں اور آج وطنیت اورعقیدے کی آڑ میں اپنے مخالفین کو غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہی ہیں۔ ان قوتوں کے سامنے عاصمہ جہانگیر نے کبھی اپنا سرنگوں نہیں کیااور وہ ہمارے معاشرے میں دستارِ فضیلت سجانے کی اصلی داعی ہیں اور رہیں گی مگر اس کے لیے سرکٹانا پڑتا ہے۔ آج عاصمہ سے زیادہ ’محبِ وطن‘کون ہو سکتاہے جنہوں نے مشکل راہ اپنائی، یاد رہے اگر وہ بھی مشکل راہ نہ اپناتی تو پھر!
تمہیں ان موسموں کی کیا خبر ہوتی اگر ہم بھی
گھٹن کے خوف سے آب وہوا تبدیل کر لیتے
اقبال کا یہ مصرع شاید عاصمہ جہانگیر کے لیے ہی کہا تھا کہ!
”ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی“
یعنی کہ زندگی تو سبھی گزار جاتے ہیں لیکن اصل زندگی صرف انہی کو نصیب ہوتی ہے جو اس زندگی کو ظلم و استبداد کے خلاف لڑتے ہو ئے تسلیم کرواتے ہیں۔ یہاں میں لاطینی امریکہ کے مشہور شاعر ہوزے مارتی کا ذکر ضرور کروں گا جنہوں نے نہ صرف اپنی شاعری سے نوآبادیاتی ظلم کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ لوگوں کو اسپینی نوآؓبادیات کے خلاف منظم کیا اور ایک فوج تشکیل دی اور پہلی ہی لڑائی میں اگلی صفوں میں لڑتا ہو ا مارا گیا۔ آج پورے لاطینی امریکہ میں ہوزے مارتی کے مجسمے آویزاں ہیں اور راقم کو کیوبا کے شہر ہوانا میں ہوزے مارتی کے مجسمے پر سرخ سلام پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے پاکستان میں سقراط، ہوزے مارتی اور یورپین دانشوروں کی روائیتوں کی امین عاصمہ جہانگیر ہی نظر آتی ہیں۔ دو سال قبل، عاصمہ جہانگیر کی وفات کے ساتھ سماج میں ظلم کے خلاف ایک توانا آواز کا خاتمہ ہو گیاجو یقینا پاکستانی سماج کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اگر پاکستان کو اکیسویں صدی میں ایک خوشحال، امن پسند اور نفرت سے پاک سماج کو پروان چڑھانا ہے تو ہمیں عاصمہ جہانگیر کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہوگااور یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے اس خلا کو پُر کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ہمارے دانشوروں، سیاستدانوں، شاعروں، ادیبوں کو سقراط جیسی سوچ کا حامل ہونا ہو گا۔ ایسے دانشور کبھی مرا نہیں کرتے!
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں