پاکستان

حکمرانوں کی ’یادِ ماضی‘ کے خلاف جنگ: یومِ ٹکر نہیں یومِ تکبیر، ’سقوطِ ڈھاکہ‘ نہیں اے پی ایس

فاروق سلہریا

حکمرانوں اور عوامی قوتوں کے مابین ہر شے پر کشمکش جاری رہتی ہے۔ اس کشمکش کا ایک اہم میدان یادِ ماضی ہوتا ہے۔ وہ جو گھسا پٹا شعر ہے نہ:

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ مرا

حکمران طبقہ دل میں سوچتا ہے: یادِ ماضی عذاب ہے یارب، چھین لے لوگوں سے حافظہ ان کا۔

حکمرانوں کی مسلسل یہ کوشش ہوتی ہے کہ انقلابی واقعات، باغی شخصیات، بغاوتوں، مزاحمتوں اور عوامی شہیدوں کا تاریخ کی کتابوں سے ذکر گول کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مطالعہ پاکستان میں بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس یا حسن ناصرکا ذکر کبھی نہیں ملے گا۔ اگر کسی واقعہ کا یا شخصیت کا ذکر حذف کرنا ممکن نہ ہو تو متعلقہ واقعہ یا شخصیت کوایسے پیش کیا جائے گا کہ مذکورہ واقعہ میں ظالم مظلوم بن جائیں اور ہیرو ولن بن جائیں۔ خڑ کمر کا واقعہ ہی دیکھ لیجئے۔

اِن دنوں سوشل میڈیا پر پشتون قوم پرست زید حامد کی ایک ٹویٹ شیئر کر رہے ہیں۔ متعلقہ ٹویٹ میں زید حامد نے اس بات پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے کہ پشاور ائرپورٹ کا نام باچہ خان کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔ زید حامد نے لگتا ہے پشاور میں زیادہ وقت نہیں گزارا ورنہ وہ یہ دیکھ کر اور بھی سیخ پا ہوتے کہ ’غدار‘اے این پی نے شہر کی ایک اچھی خاصی بڑی سڑک کا نام حبیب جالب کے نام سے منسوب کر دیا ہے۔

تاریخ کے خلاف جنگ کا ایک اہم حوالہ ’یومِ تکبیر‘ بھی ہے۔ دو دن قبل اگر ایک طرف پی پی پی کے جیالے یہ ثابت کرنے میں لگے تھے کہ بھٹو نے ایٹمی پروگرام شروع کیا تھا تو مسلم لیگ (ن) والے نواز شریف کو بہت بڑا سامراج مخالف ہیرو بنا کر پیش کر رہے تھے جس نے امریکی دباؤ کے باوجود ایٹمی دھماکے کر دئیے۔

ہر سال ’یوم تکبیر‘ ایسے منایا جاتا ہے گویا پوری ’قوم‘خود ساختہ تباہی کے اس سب سے بڑے نمونے پر ہمیشہ نازاں اور متحد تھی اور ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب ایٹمی دھماکے کئے گئے تو بلوچستان کی حکومت، جس کے وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل تھے، نے ان دھماکوں کی مخالفت کی تھی۔ اس کی سزا انہیں یہ ملی کہ جلد ہی ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔

مٹھی بھر ہی سہی، بائیں بازو کے لوگ بھی اس ایٹمی پاگل پن کے خلاف تھے جو ہندوستان میں بی جے پی اور پاکستان میں مسلم لیگ (ن) [ان دنوں مسلم لیگ کو پی ٹی آئی کا درجہ حاصل تھا] نے شروع کر رکھا تھا۔

بیس سے زیادہ ’یوم ِتکبیر‘منائے جا چکے ہیں مگر لاہوریا کراچی تو کیا پشاور میں رہنے والی آلِ یوتھ کو بھی معلوم نہ ہو گا کہ جس دن سرکار ’یومِ تکبیر‘مناتی ہے اس دن پشتون قوم پرست ’شہدائے ٹکر‘ کی یاد مناتے ہیں۔

سانحہ ٹکر

ٹکر مردان کا ایک تاریخی گاؤں ہے۔ 1930ء میں باچہ خان کی ہدایت پر خدائی خدمت گار گرفتاریاں پیش کر رہے تھے۔ ٹکر سے تعلق رکھنے والے خدائی خدمت گار: ملک معصم خان، ملک خان بادشاہ اورسالار شمروز خان نے گرفتاری دینے کا اعلان کر رکھا تھا۔ 26 مئی کو انگریز ایس پی مورپی انہیں گرفتار کرنے ٹکر آیا مگر گاؤں کے لوگوں نے کہا کہ رضاکار خود گرفتاری دینے مردان آئیں گے۔ اگلے روز جلوس ٹکر سے مردان جا رہا تھا کہ راستے میں گجر گھڑی کے مقام پر ایس پی مور پی نے جلوس پر تشدد شروع کر دیا۔ سلطان پہلوان نامی ایک خدائی خدمت گار نے ایس پی پر گولی چلا دی۔ ایس پی گھوڑے سے نیچے گر گیا۔ جلوس کو پانی پلانے کیلئے گجر گھڑی کی خواتین بھی موجود تھیں۔ ان میں سے ایک خاتون، سواتی ابئی، نے گھڑا ایس پی مور پی کے سر پر دے مارا اور وہ چل بسا۔ اگلے روز، یعنی ’یوم تکبیر‘ والے دن، انگریز فوج نے ٹکر پر چڑھائی کر دی۔ ستر کے لگ بھگ انقلابی جان سے گئے۔ سو سے زائد زخمی ہو گئے۔

ان شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے پشتون قوم پرست اور انقلابی 28 مئی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ کبھی کسی صابر شاکر ’صحافی‘ یا دانشور سے آپ نے اس کا ذکر کسی ٹاک شو میں سنا؟ یا کبھی ایسی تقریب کا کوئی ٹکرا کسی اے آر وائی کی اسکرین پر دیکھا؟ نا ممکن۔

یادِ ماضی کے خلاف اگلا شرمناک اظہار آپ سولہ دسمبر کو دیکھیں گے۔

جب نیوز چینلز نہیں آئے تھے تو سولہ دسمبر کے دن ’سقوطِ ڈھاکہ‘ [جسے بنگلہ دیش والے بجا طور پر اپنا یومِ آزادی قرار دیتے ہیں] پر خصوصی شمارے شائع کئے جاتے۔ بولا تو جھوٹ ہی جاتا تھا: ’بھٹو نے ادھر ہم، ادھر تم کہہ کر بنگلہ دیش بنوا دیا‘ لیکن مندجہ ذیل شرمناک تصویر بھی ہر سال شائع ہوتی ہے:

پہلے پہل نیوز چینلز پر بھی سولہ دسمبر پر ہلکا پھلکا ذکر چل نکلتا تھا۔

16 دسمبر 2014ء کو یہاں طالبان نے پاکستانی بچوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ بلا شبہ اس ہولناک واقعہ کو یہ نسلیں کبھی نہ بھلا سکیں گی نہ آنے والی نسلوں کو بھلانا چاہئے تا کہ اگلی نسلوں کو بھی یہ سبق ملتا رہے کہ جب فرینکنسٹائن پالے جاتے ہیں تو وہ پھر معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔

حکمرانوں کی لیکن چالاکی دیکھئے۔ اس المئے کی آڑ میں ایک طرف ’سقوطِ ڈھاکہ‘ کا باب بند کر دیا گیا ہے بلکہ اپنے پالے ہوئے فرینکنسٹائن کو عون (Own) کرنے کی بجائے، اپنی خونی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے یہ خونی حکمران کابل کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ ’تھینک لیس‘ افغان نئے ’اجنبی‘ ہیں۔

جارج اورویل نے 1984ء میں بھلے ہی سوویت روس کی سٹالن وادی نوکر شاہی کے بارے میں لکھا تھا لیکن پاکستان کے کلچرل کومیسار بھی ’سٹالن اسکول آف فالسیفیکیشن‘کے گریجویٹس سے کم نہیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔