نقطہ نظر


ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی ٹیرف جنگ عالمی کساد بازاری کا موجب بنے گی: مائیکل رابرٹس

امریکی اشیا کی درآمدات پر ٹرمپ کا ٹیرف میں اضافہ 130 سے زائد سالوں میں سب سے بڑا ہے، جس سے موثر اوسط ٹیرف کی شرح 25 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس سے غریب ’گلوبل ساؤتھ‘کے ممالک سے امریکہ کو اشیا کی برآمدات کو شدید نقصان پہنچے گا، جنہیں کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ دوسری طرف ویتنام جیسے ملک کو 45 فیصد کے ٹیرف میں اضافے کا سامنا ہے، جبکہ چین کو 59 فیصد کے ٹیرف میں اضافے کا سامنا ہے۔ تمام ممالک کے لیے 10فیصد ٹیرف میں اضافہ کیا گیا ہے، چاہے امریکہ کا ان کے ساتھ تجارتی خسارہ نہ بھی ہو۔

’سزائے موت‘: بھٹو کی زندگی پر تھیٹر پلے کا پریمیئر 9 اکتوبر کو اوسلو میں ہو گا

ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی پر ‘یہ ڈرامہ صرف پھانسی کے متعلق نہیں بلکہ بھٹو کی ساری زندگی اور پاکستان کی تاریخ و سیاست کے متعلق ہے۔ کھیل شروع تو راولپنڈی جیل کی کال کوٹھری سے ہو گا مگر فلیش بیک سے بھٹو کی ساری زندگی کا احاطہ کیا جائے گا اور نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے بھٹو کی اچھائیوں کے ساتھ اُنکی کمزوریوں اور اُن کے وہ سیاسی اقدامات جنہیں متنازعہ سمجھا جاتا ہے، پر بھی بات ہوگی۔ تاکہ سوچ کا ایک ایسا عمل شروع ہو جس سے بھٹو کو نئے سرے سے دریافت کرنے میں مدد مل سکے۔’

کیا جنگیں صرف پیسے بنانے کے لیے ہوتی ہیں؟

جب بھی کوئی جنگ چھڑتی ہے، لوگ سب سے آسان اور سطحی وضاحت کی طرف لپکتے ہیں کہ ’یہ سب پیسے کے لیے ہو رہا ہے۔‘ وہ لینن کا مشہور جملہ دہراتے ہیں کہ ’جنگ ایک انتہائی منافع بخش چیز ہے۔‘ یہ بات کر کے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ پوری بحث کا خلاصہ ہے، یاجیسے سرمایہ داری ایک جوا خانہ ہے جہاں جنگ ڈالیں اور منافع نکال لیں۔

یوکرائن جنگ پر مارکسی موقف (کچھ بنیادی نکات)

ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے اور پیوٹن کے ساتھ ہاتھ ملانے کے عمل نے دنیا بھر میں یوکرائن جنگ کی بحث کو ایک بار پھر ابھارا ہے۔ ان حالات میں کچھ دن پہلے تک پیوٹن کی بالواسطہ یا براہِ راست حمایت کرنے والا کیمپسٹ بایاں بازو ایک نئے تذبذب کا شکار نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے ہم ٹھیک دو سال قبل انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ کی بین الاقوامی کانگریس میں منظور ہونے والی ایک قرارداد اپنے قارئین کے لئے شائع کر رہے ہیں۔

’ملٹی پولر دنیا‘ پر خوشی سے بغلیں بجانا احمقوں کی سامراج مخالفت ہے

محنت کشوں کو ایک اپنی انٹرنیشنل تعمیر کرنی ہوگی۔ وہی کچھ کرنا ہوگا جو 19ویں صدی کے آخر میں فرسٹ انٹرنیشنل، سیکنڈ انٹرنیشنل اور بعد ازاں تھرڈ اور فورتھ انٹرنیشنل نے کیا۔ فورتھ انٹرنیشنل آج بھی متحرک ہے۔ اس کے پلیٹ فارم سے یا اس طرح کے دیگر نئے پلیٹ فارم تشکیل دے کر، یا موجود پلیٹ فارمز کو توسیع دے کر بین الاقوامی یکجہتی قائم کرتے ہوئے، عالمی تحریکوں کو منظم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ ایسی عالمی تحریکیں جو نہ تو چین اور روس پر خوش فہمی رکھیں، نہ امریکہ اور یورپ پر، بلکہ وہ خود سے ایک طاقت بنیں۔ اسی طرح کی ایک طاقت جیسی 20ویں صدی کے آغاز میں سیکنڈ انٹرنیشنل ایک طاقت تھی، یا پھر جیسے ایک وقت میں تھرڈ انٹرنیشنل تھی، تب ہی جا کر ہم نجات پا سکتے ہیں۔ نجات پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کے سامراج کو شکست دیں۔ یہ سامراج امریکہ کی شکل میں ہو، یورپ کی شکل میں، یا روس اور چین کی شکل میں ہو۔

انقلاب روس میں خواتین کا کردار اور 8 مارچ کے تقاضے

ہر سال 8مارچ کو محنت کش خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ انسانی سماج کی ترقی میں عورت کے کردار کو ہمیشہ پست کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم دنیا بھر کے بڑے انقلابات سمیت عورت کی نجات اور حقوق کی جدوجہد میں خواتین کی جدوجہد کی ایک درخشاں تاریخ ہے۔ یہ سماج کی وہ پرت ہے جس نے ہر سطح پر سامنے آنے اور خود کو منوانے کی سب سے زیادہ کوشش کی ہے۔ گھر سے شہر، شہر سے دیس اور دیس در دیس یہ کوشش اور مشقت چلتی رہی،یہاں تک کہ اس نے عالمی سطح پر گردانے جانے تک کی منزل کو بھی سر کر لیا۔

عورت کی آزادی ایک آزاد انسانی سماج کی متقاضی!

سرمایہ داری کے بحران نے معاشی گراوٹ، سیاسی چپقلشوں، قحط، جنگوں اور ماحولیاتی تباہی کو زیادہ بڑے پیمانے پر بڑھایا ہے۔ جبر و تشدد، ناانصافی اور استحصال کو مزید تیز تر کردیا ہے۔ دوسری طرف تیسری دنیا میں خاندانوں کو درپیش معاشی مسائل نے عورت کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ جہاں عورتیں پہلے ہی دوہرے استحصال کا شکار تھیں، وہیں ان معاشی مسائل کی زدمیں آکر تہرے استحصال کا شکار ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ گھر سے نکل کر کام کی جگہ تک ایک عورت کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا ہے جن میں ذہنی اور جنسی طور پر ہراساں کیا جانا سر فہرست ہے۔

سرمایہ داری، صنفی استحصال اور عورت کی اقتصادی حیثیت

سرمایہ دارانہ انقلاب جب اپنے جوبن پر تھا، تو اس نے محنت کش طبقے کو کچھ حاصلات دینے میں کامیابی حاصل کی۔تاہم جیسے ہی یہ نظام اپنے اندرونی تضادات میں الجھنے لگا، بحرانات نے جنم لیا اور وہی حاصلات، جو کبھی مزدور طبقے کی جیت سمجھی جاتی تھیں، یکے بعد دیگرے واپس چھینی جانے لگیں۔ آج سرمایہ داری اپنی متروکیت کے آخری مراحل میں ہے، اور اس کے زوال کی نشانیاں واضح ہو چکی ہیں۔ مارکس نے کہا تھا کہ اگر سماج کے ایک حصے پر دولت اور تعیش کا ارتکاز بڑھ رہا ہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دوسرے حصے پر محرومی اور ذلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ: آدمی اور شہر

جب کوئی ٹوبہ ٹیک سنگھ کا سوچتا ہے تو سعادت حسن منٹو کا بھی خیال آتا ہے۔ 1955 میں شائع ہونے والی ان کی ہڈیوں کو ٹھنڈا کرنے والی کہانی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘کی یاد آتی ہے، جس میں 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد ہونے والی خوفناک انسانی حالت اور مصائب کی عکاسی کی گئی تھی۔ منٹو نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نام کو امر کر دیا۔ اب منٹو کو اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کم از کم کہنے کی حد تک وہ لازم و ملزوم ہیں۔

پاکستان میں میڈیا ذرائع کو قید کرنے والی قانون سازیاں

پاکستان میں بھی بھارت، چین، مشرق وسطیٰ اور دیگر پسماندہ خطوں کی طرح میڈیا پر پابندیوں میں مزید سختی آتی جا رہی ہے۔ میڈیا ذرائع پر پابندیاں اور سنسرشپ کوئی آج کے عہد کی بات نہیں ہے۔ میڈیا سے نصاب تک ہر شعبے کو ہمیشہ سے ہی حکمران طبقات کے مفادات کی تکمیل تک کی ہی آزادی میسر رہی ہے۔ اکثریتی عوام کو حکمران طبقات کے مفادات کو تحفظ دینے والے نظام کے حق میں دلیلوں پر مبنی معلومات ہی فراہم کی جاتی رہی ہیں۔ تاہم کہیں نہ کہیں آزادی اظہار کی جدوجہد کی بنیاد پر کچھ گنجائشیں بھی حاصل کی گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ کاروباری مقاصد کے لیے ہونے والی میڈیا ذرائع کی ترقی نے میڈیا ذرائع کو اس قدر وسیع کر دیا کہ حکومتوں کے لیے میڈیا کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ماضی کے قوانین ناکافی ہوتے گئے۔یوں میڈیا ذرائع کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان میڈیا ذرائع کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین میں بھی بتدریج تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔