پاکستان میں ناروے جیسا حقیقی طاغوتی نظام رائج کرنے کے لیئے مذھب کو آئین و قانون، پالیمینٹ و عدالتی نظام سے بے دخل کرنا ہوگا تاکہ قرونِ وُسطیٰ کے پادریوں اور چرچ کی ترجمانی کرنے والے پریچرز اور میڈیائی مداریوں کی زھریلی اور کھوکلی منطق سے نجات مل سکے اور یہ کام ۱۹۴۹ کی قراردادِ مقاصد کو بابائے قوم کی نافرمانی اور اقلیتوں کے خلاف اُس زمانے کے پریچرز اور اُنکے حواریوں کی گھنونی سازش تسلیم کرتےہوئے ۱۹۷۳ کے آئین سے بھی اسلام کو بے دخل کردینے سے شروع ہوسکے گا۔
نقطہ نظر
ناروے اور نظامِ طاغوت (حصہ اول)
حال ہی میں سما چینل پر مکالمہ نامی پروگرام میں لکھاری خلیل اُلرحمن قمر اور ٹی وی پریچر ساحل عدیم کو عورتوں کو درپیش مسائل پر رائے زنی کے لیے بلایاگیا۔ میں پروگرام کے آغاز میں یہ سوچتا رہا کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ بات تو عورتوں کے حقوق پر ہورہی ہے،مگر اسٹوڈیو میں بطورِ مہمان صرف مرد حضرات کو ہی بلایا گیا ہے۔ بعد میں یہ بھی دیکھا کہ پبلک میں بیٹھی ایک باشعور و تعلیم یافتہ لڑکی کو تنقیدی تبصرہ اور کڑوے سوال کرنے پر اس طرح جھڑک کر حقارت سے گھورا گیا کہ جیسے کوئی جاہل و بدکردار جاگیردار اپنے زرخرید غلام کی تذلیل کر رہا ہو، مگر ازبا عبداللہ نامی اس بہادر لڑکی نے95 فیصد عورتوں کو جاہل کہنے والے دونوں ادھیڑ عمر مردوں کو نہایت ہی بردباری و معلمانہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کھولتے تیل کے کڑھائے میں پھینک دیا۔
’ماضی کے متاثرین تاحال بے یارومدد گار ہیں، نیا ملٹری آپریشن کوئی قبول نہیں کرے گا‘
ماضی کے آپریشنوں کی وجہ سے خیبر ایجنسی میں تیرہ اور دیگر علاقوں سے بے دخل کئے گئے لوگ آج بھی آئی ڈی پی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بحالی کے نام پر ہر خاندان کو ایک ایک خیمہ اور کچھ راشن دے کر تباہ حال علاقوں میں جبری طور پر بھیجا جا رہا ہے۔ بنوں میں آج بھی لوگ اپنی ہی سرزمین پر مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ماضی کے تلخ تجربات کے ساتھ ساتھ پی ٹی ایم نے لوگوں میں شعور بیدار کر دیا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ آپریشن ہوگا تو سب سے زیادہ نقصان ان کا ہوگا۔ جب تک گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی ختم نہیں ہوتی، یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ بائیں بازو کو اس آپریشن کے خلاف کراچی، لاہور ، راولپنڈی جیسے شہروں میں احتجاج منظم کرکے آپریشن کی مخالفت کرنی چاہیے۔
’دہشت گردی سے زیادہ حکومتی آپریشنوں نے نقصان پہنچایا‘
آپریشن عزم استحکام کا نشانہ اس بار بھی بلوچستان اور پختونخوا کے افغانستان کے ساتھ لگنے والے سرحدی اضلاع یعنی سابق فاٹا کے اضلاع بنتے نظر آرہے ہیں۔ پختونخوا میں تمام لوگ ہی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ لوگ دہشت گردی سے متاثرہ ہیں۔ ان کے لوگوں کو مارا گیا، ٹارگٹ کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔ ان کی زندگیوں کو برباد کیا جا رہا ہے، لیکن وہ پھر بھی ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ماضی کے آپریشنوں کا تجربہ ہے، جو بہت تلخ رہا ہے۔لوگوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ شاید کچھ دہشت گردوں کے خلاف حکومت آپریشن کرتی بھی نہیں ہے۔ گڈ بیڈ طالبان کی تفریق کی جاتی ہے۔
’پاکستانی معیشت ریڈ زون میں ہے‘
’’پاکستان اور چین کے قرضوں کا سوال بہت اہم ہے۔ پاکستان کے کل بیرونی قرضے 130ارب ڈالر ہیں، ان میں سے 40ارب ڈالر چین سے لئے گئے ہیں۔ یہ تقریباً کل قرضے کا 30فیصد بنتے ہیں۔ ۔۔ ملٹی لیٹرل ڈونرز کے قرضوں کے میچورٹی کا دورانیہ کم سے کم 15 سال سے شروع ہوتا ہے اور شرح سود بھی 1.5کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ چین کے قرضوں کی میچورٹی کا دورانیہ 9.1سال سے شروع ہوتا ہے اور شرح سود 3.72فیصد۔‘‘ـ
کیا عمران خان کو دوسری اننگ کھیلنے دی جائے گی؟
عمران خان میں کسی قسم کی خوش فہمی نہیں پالنی چاہئے۔ عمران خان کلین شیو جماعت اسلامی ہے۔ تحریک انصاف مزدور دشمن،عورت دشمن سیاسی مظہر ہے۔ اس کا لیکن یہ مطلب بھی نہیں کہ فوج کی حمایت کی جائے۔ خوش قسمتی سے ملک میں بائیں بازو کا کوئی گروہ بھی اس نقطہ نظر سے اختلاف کرتا دکھائی نہیں دیتا۔
دوم، فوج اور تحریک انصاف کی لڑائی ابھی چلے گی۔ اگر کسی موقع پر یہ تضاد حل بھی ہوا تو ملک کو درپیش معاشی و سیاسی بحران حل نہیں ہو گا۔ بائیں بازو کو اپنا کام جاری رکھنا ہو گا۔یہ الگ بات ہے کہ بائیں بازو کے بعض حلقے اس سمت میں گامزن نہیں جس سمت میں انہیں جانا چاہئے۔ اس ضمن میں چند گزارشات یہاں پیش کی گئی تھیں۔
کیا گیلیلیو یا ڈارون کو غلط ماننے سے کوئی فرق پڑتا ہے؟
کسٹوفر کولمبس کے بارے میں ہمیں بچپن میں ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ ہندوستان پہنچنا چاہتا تھا لیکن امریکہ کی طرف جا نکلا۔ یہ بات نہیں بتائی جاتی کہ کولمبس نے جو سفر کی منصوبہ بندی کی تھی اس کی بنیاد یہ سائنسی نقطہ تھا کہ زمین گول ہے۔
بات یوں ہے کہ کولمبس سے قبل بھی یورپ کے مہم جو،جنوبی ایشیا اورمشرقی ایشیا کی جانب جانے کی کوشش کر چکے تھے۔ ان کے سفر نامے اس بات کا ثبوت تھے کہ جس سمندری راستے سے وہ ایشیا جانے کی کوشش کر تے ہیں،وہ بہت لمبا ہے۔
عوامی تحریکوں کا کردار صنفی تفریق سے بالا تر ہے!
عالمی سرمایہ دارانہ نظام جو کہ معاشی گراوٹ، سیاسی چپقلشوں، ماحولیاتی بحران، سامراجی جنگوں، ہجرتوں، قحط اور قدرتی آفات کا شکار ہے۔ جہاں اس نظام میں رہتے ہوئے انسانوں کو بے پناہ جبر اور مسائل کا سامنا ہے، وہیں دوسری جانب محنت کش عوام کے اندر اس جبر کے خلاف غم و غصہ بھی موجود ہے۔ جس کے باعث تمام ممالک کے اندر بہت سی چھوٹی بڑی تحریکیں بھی موجود ہیں۔
زندگی کی بقا دیگر سیاروں پر زندگی کی تلاش سے زیادہ ناگزیر
اس نظام میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو سرمایہ داروں کے منافعوں کی ہوس نے زندگی کی بقاء کو یقینی بنانے کی بجائے زندگی کو ایسے خطرات سے دوچار کرنے کا موجب بنادیا ہے جو پہلے کبھی نہیں درپیش تھے۔حکمران طبقہ دیگر سیاروں میں زندگی کے امکانات کو مبالغہ آرائی سے اس لیے پیش کرتا ہے تاکہ اس زمین میں زندگی کو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے درپیش سنجیدہ خطرات سے توجہ ہٹائی جائے۔خلائی تحقیقات پر سرمایہ کاری کا مقصد کائنات کے رازوں کو جان کر تمام انسانوں کو مستفید کرنا نہیں ،نہ ہی کسی اور سیارے میں انسانوں کو زندہ رکھنے کے لئے منتقل کرنا ہے ،بلکہ منافعوں کے لیے اور تسلط کے لیے اجارہ دایوں کی دوڑ کا حصہ ہے جو خشکی، سمندروں اور فضاؤں کے بعد خلاؤں پر قبضے کے لیے ہے۔
سوشلسٹ صحافت اور سرمایہ دار میڈیا کا فرق
پاکستان میں کرکٹ بہت شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ خاص کر جب ورلڈ کپ یا کوئی بڑی سیریز کھیلی جا رہی ہو تو لگ بھگ پورا ملک ٹیلی ویژن اسکرین سے چپکا ہو تا ہے۔ آپ میچ دیکھنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ٹیلی ویژن چینل آپ کو میچ دکھا رہا ہے۔ حقیقت میں چینل کے نظر میں آپ ایک جنس (commodity)ہیں جسے چینل اشتہاری کمپنیوں کے ہاتھ بیچ رہا ہوتا ہے۔ کرکٹ میچ ہو یا کوئی ڈرامہ،چینل کے لئے یہ میچ یا ڈرامہ ایک بہانہ ہوتا ہے۔اس بہانے وہ آپ کو اپنے پاس بلاتا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں،کہ آپ چینل کی آڈینس ہیں۔ اصل میں چینل کی آڈینس اشتہار دینے والی کمپنیاں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لگ بھگ ہر بال کے بیچ، ہر اُوور کے بیچ، اشتہار چل رہا ہوتا ہے۔