صائمہ بتول
سرمایہ دارانہ انقلاب جب اپنے جوبن پر تھا، تو اس نے محنت کش طبقے کو کچھ حاصلات دینے میں کامیابی حاصل کی۔تاہم جیسے ہی یہ نظام اپنے اندرونی تضادات میں الجھنے لگا، بحرانات نے جنم لیا اور وہی حاصلات، جو کبھی مزدور طبقے کی جیت سمجھی جاتی تھیں، یکے بعد دیگرے واپس چھینی جانے لگیں۔ آج سرمایہ داری اپنی متروکیت کے آخری مراحل میں ہے، اور اس کے زوال کی نشانیاں واضح ہو چکی ہیں۔ مارکس نے کہا تھا کہ اگر سماج کے ایک حصے پر دولت اور تعیش کا ارتکاز بڑھ رہا ہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دوسرے حصے پر محرومی اور ذلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یہی حقیقت آج دنیا بھر میں دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں چند ملٹی نیشنل کمپنیاں پوری معیشت پر قابض ہو چکی ہیں اور دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہو گئی ہے، جبکہ دوسری طرف محنت کش طبقے کی حالت مزید بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ منڈی میں منافع کمانے کی ہوس اتنی شدت اختیار کر چکی ہے کہ سستے مزدوروں کے استحصال کے ذریعے پوری دنیا میں سرمایہ داری اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔ اسی نظام کے تحت عورت کا استحصال دوگنا ہو چکا ہے۔ مارکسی دانشور لال خان نے کہا تھا کہ ’اگر مذہبی سوچ عورت کو ذاتی ملکیت اور غلام تصور کرتے ہوئے گھر کی چار دیواری میں قید کرتی ہے، تو آزاد خیال اشرافیہ اسے کاروبار اور منافعوں کی بڑھوتری کے لیے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔‘ سرمایہ داری کے استحصالی ڈھانچے میں عورت کو ایسی لیبر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جو ایک طرف بلامعاوضہ گھریلو مشقت کے ذریعے سرمایہ داری کے لیے نئی لیبر فورس تیار کرتی ہے، اور دوسری طرف مردوں کے مقابلے میں کم اجرت پر کام کر کے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت سرمایہ داری کے لیے نفع بخش ثابت ہوئی ہے۔ نجی ادارے اور کمپنیاں خواتین کو کم اجرت پر ملازمتیں دے کر اپنے منافع کو بڑھانے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ وزارت انسانی وسائل ابو ظہبی نے 2024 میں انکشاف کیا تھا کہ’2022 کے مقابلے میں 2023 میں نجی شعبے میں خواتین کی شراکت میں 23.1 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘ بظاہر یہ ایک مثبت تبدیلی معلوم ہوتی ہے، مگر حقیقت میں یہ خواتین کے استحصال کا ایک اور طریقہ ہے، جہاں انہیں کم اجرت اور غیر محفوظ ماحول میں زیادہ کام کروایا جاتا ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ’1960 سے اب تک صرف 59 ممالک ایسے ہیں جہاں ایگزیکٹو پاور کا سب سے بڑا عہدہ کسی خاتون کے پاس رہا ہو۔ اگرچہ لیبر مارکیٹ میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ان کی نجی ملکیت اور کاروباری شراکت داری میں نمایاں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بڑی کمپنیوں کے سی ای او کے عہدے آج بھی زیادہ تر مردوں کے پاس ہیں، اور خواتین کو زیادہ تر نچلے درجے کی ملازمتوں تک محدود رکھا جاتا ہے۔‘
جو خواتین سماجی دباؤ اور گھریلو مسائل کے باوجود لیبر مارکیٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں یا اپنا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرتی ہیں، وہ سرمایہ دارانہ قوانین اور صنفی تفریق کا سامنا کرتی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں خواتین کے لیے کاروباری مواقع محدود کر دیے گئے ہیں۔ انہیں بیوٹی پارلر، ٹیچنگ، گھریلو ملازمت، آیا یا نینی جیسی روایتی نوکریوں تک محدود رکھا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں کال سینٹرز اور بلنگ کمپنیوں نے نوجوان خواتین کے لیے ملازمت کے دروازے کھولے ہیں، لیکن وہاں بھی غیر شادی شدہ اور 18 سے 25 سال کی عمر کی خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سرمایہ داری خواتین کو محض ایک وقتی معاشی آلہ کار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں خواتین کو روزگار کی جگہوں، دفاتر اور بازاروں میں مختلف اقسام کی ہراسانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر اب تک 736 ملین خواتین جنسی یا جسمانی زیادتیوں کا شکار ہو چکی ہیں۔ ان کیسز میں زیادہ تر واقعات میں زیادتی کرنے والے خود ان کے قریبی رشتہ دار، شوہر یا سابقہ شوہر ہوتے ہیں۔ دنیا کے 158 ممالک میں گھریلو تشدد سے متعلق قوانین منظور کیے جا چکے ہیں، جبکہ 141 ممالک میں کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے خلاف قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ تاہم ان قوانین کے باوجود عورت کا استحصال ختم نہیں ہوا، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام نے اسے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں جہاں رجعتی اور بنیاد پرست نظریات عورت پر بے جا پابندیاں عائد کرتے ہیں، وہاں خواتین کے لیے آزادانہ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا مزید مشکل بنا دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ قدرتی آفات کو بھی خواتین کے لباس سے جوڑا جاتا ہے، اور ان کی بے پردگی کو زلزلوں یا خشک سالی کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ ان معاشرتی جکڑ بندیوں میں جکڑی عورت جب اپنی معاشی آزادی کے لیے کوئی قدم اٹھاتی ہے، تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سرمایہ داری نے عورت کے استحصال کے لیے خوبصورتی کے مخصوص معیار مقرر کر دیے ہیں، جنہیں برقرار رکھنے کے لیے کاسمیٹکس انڈسٹری نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ صنعت خواتین کی نفسیات پر اثر انداز ہو کر انہیں مخصوص بیوٹی سٹینڈرڈز پر پورا اترنے کے لیے مجبور کرتی ہے، تاکہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت بنائی گئی مصنوعات کو خریدنے پر مجبور ہو جائیں۔ سوشل میڈیا، اشتہارات اور فلم انڈسٹری کے ذریعے ایک خاص قسم کی ’خوبصورتی‘کا تصور عام کر دیا گیا ہے، جہاں گورے رنگ اور دُبلی پتلی جسامت کو معیارِ حسن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس نفسیاتی دباؤ کے باعث خواتین مہنگی کاسمیٹکس مصنوعات خریدنے پر مجبور ہوتی ہیں، اور سرمایہ دار اس پوری صنعت سے اربوں کا منافع کماتے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس رپورٹ کے مطابق 2019 سے 2021 کے دوران پاکستان کو صنفی امتیاز کے لحاظ سے 153 ممالک میں 111 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔ 2022 کی رپورٹ میں مزید تنزلی دیکھنے کو ملی، اور پاکستان 146 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر پہنچ گیا۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں صنفی مساوات کا فقدان بدستور موجود ہے، جہاں خواتین کو مساوی مواقع فراہم کرنے کی بجائے انہیں مزید پسماندگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
یہ تمام اعداد و شمار اور مشاہدات اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام نے عورت کو دہرے استحصال کا نشانہ بنایا ہے۔ ایک طرف وہ بلامعاوضہ گھریلو مشقت کے ذریعے سرمایہ داری کے لیے نئی لیبر فورس پیدا کرتی ہے، اور دوسری طرف کم اجرت پر کام کر کے سرمایہ داروں کے منافع میں اضافہ کرتی ہے۔ جب تک سرمایہ داری کا جابرانہ نظام قائم ہے، عورت کی حقیقی آزادی ممکن نہیں۔
اس ظلم و استحصال سے نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے، جو صنفی برابری، انصاف اور معاشی مساوات پر مبنی سماج کی بنیاد رکھے۔ یہ انقلاب صرف تبھی ممکن ہے جب عورتیں بھی منظم ہو کر اس طبقاتی جدوجہد میں بھرپور شمولیت اختیار کریں۔ ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر، جس میں خواتین کی شمولیت کلیدی حیثیت رکھتی ہو، ہی وہ واحد راستہ ہے جو سرمایہ داری کے استحصالی ڈھانچے کو گرا کر ایک منصفانہ معاشرے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔