اس سال کے آغاز میں اتفاق سے،لاہور میں ایک ایسے اجلاس میں جانے کا اتفاق ہوا جس کا موضوع تھا کاپی رائٹس۔ کاپی رائٹس دنیا کی ایک بڑی صنعت ہے۔ اپنی ڈاکٹریٹ پر تحقیق کے دوران، بالخصوص ڈبلیو ٹی او کے حوالے سے نئی قانون سازی کے پس منظر میں راقم نے بھی اس موضوع سے جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی کیونکہ میری تحقیق کا موضوع گلوبلائزیشن کے عہد میں میڈیا سامراج کا جائزہ لینا تھا۔
نقطہ نظر
’2000ء کے بعد پاکستان میں 16 ہزار 600 دہشت گردانہ حملے ہوئے‘
میں پنجاب یونیورسٹی میں بائیں بازو کا طالب علم کارکن تھا، جہاں میں اپلائیڈ سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ میں طلبہ یونین کا صدر منتخب ہوا۔ میں مذہبی جنونیوں کے خلاف کئی لڑائیوں میں مدد اور قیادت کرتا رہا ہوں۔ 1977 کے آخر میں میرے ایک مضمون میں پیپلز پارٹی کی دائیں بازو کی قیادت اور فوجی جنرل کے درمیان ہونے والی سازش کو بے نقاب کرنے کے بعد ملک چھوڑنا پڑا۔ میں نے 8 سال جلاوطنی میں گزارے اور پھر ایک شہری کے طور پر ہالینڈ میں رہنے کا اختیار ہونے کے باوجود پاکستان واپس آ گیا۔ میں 1997 سے 2019 تک لیبر پارٹی پاکستان اور بعد میں عوامی ورکرز پارٹی کا جنرل سیکرٹری رہا۔ میں نے AWP چھوڑ کر ایک نئی سیاسی جماعت حقوق خلق پارٹی بنائی، اور میں اس کا صدر ہوں۔ میں پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کا جنرل سیکرٹری بھی ہوں۔ یہ پاکستان کی واحد تنظیم ہے جو La Via Campesinaسے منسلک ہے۔ میں ایشیا یورپ پیپلز فورم ایشیا ٹیم کا سربراہ بھی ہوں، اور کئی دیگر علاقائی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز میں شامل ہوں۔
حسینہ کے فرار کی توقع کسی کو نہیں تھی: نوین مرشد
’’لوگوں نے یہ شیخ مجیب کو مسترد نہیں کیا۔ نوجوان نسل تو انہیں زیادہ جانتی بھی نہیں ہے۔ یہ شیخ حسینہ کے اعمال کا رد عمل ہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کیلئے جس طرح شیخ مجیب کو لوگوں پر مسلط کیا، یہ سب اس کا رد عمل ہے۔ ہر جگہ ان کے نشان تھے، ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ مجیب کا بنگلہ دیش ہے۔ وہ کہتی تھیں کہ میرے باپ کا ملک ہے، میرے باپ نے ملک آزاد کروایا۔ انہوں نے اپنے باپ کو اتنا بیچا کے لوگ تنگ آگئے۔‘‘
’حسینہ فرار نہ ہوتیں تو ان کی لنچنگ ہو جاتی، لوگ سری لنکا ڈھاکہ میں دہرانا چاہتے تھے‘
(ہنستے ہوئے)بنگلہ دیش کی فوج عبوری حکومتیں بنانے کی مہارت رکھتی ہے۔ اچھے انداز میں بھی۔برے انداز میں بھی۔ مارشل لا تو نہیں لگا۔ عبوری حکومت بنے گی۔ادہر طلبہ کل (منگل کے روز) پریس کانفرنس کریں گے۔ ابھی تک افواہ یہ ہے کہ طلبہ نے فوجی سر براہ سے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ صدر سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس سب سے قطع نظر، طلبہ حزب اختلاف کے 31 نکات پر عمل درآمد کی بات کرتے آئے ہیں۔ اس منشور کا مقصد یہ ہے کہ ریاست کو جمہوری بنایا جائے۔ جبر کا خاتمہ ہو۔مختلف طرح کی اصلاحات ہوں۔طلبہ اس ملک کو آگے لے کر جا سکتے ہیں۔ ہو گا کیا،یہ ابھی دیکھنا ہو گا۔
اسمعیل ہنیہ، ایمان خلیف اور پاکستانی معاشرے کا سرکاری تعفن
جس طرح عورت دشمنی اور دایاں بازو لازم و ملزوم ہیں اسی طرح ٹرانس فوبیا اور دایاں بازو لازم و ملزوم ہیں۔مزید یہ کہ عالمی کھیلوں میں اکثر غیر سفید فام کھلاڑیوں کو اس قسم کی نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امہ کی محبت میں گرفتار الباکستانی ایمان خلیف کے ساتھ کھڑے ہوتے۔مگر نہیں۔ الباکستانی،مڈل کلاس، دایاں بازو۔۔۔مظلوم،کمزور اور پسے ہوئے طبقات کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتے۔سچ اور جھوٹ بھی ان کے لئے اہم نہیں ہوتا۔کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران الباکستانی بھارت اور افغانستان سے اتنی نفرت کا اظہار نہیں کرتے جتنی نفرت کا اظہار پچھلے ہفتے ایمان خلیف سے کیا گیا۔
ایمان خلیف نے تمام ٹرانس فوبک الباکستانیوں کے منہ پر زور دار پنچ مارا ہے! جینڈر کی بناید پر نفرت کا بہترین جواب یہی ہو سکتا تھا۔
خلیل الرحمن پاکستان کا ثقافتی عمران خان ہے
یہی حال خلیل الرحمن قمر کا ادبی حوالے سے ہے۔ ادب مظلوم کی ٓواز بننے کا نام ہے۔ ادب فیض احمد فیض، حبیب جالب،استاد دامن،شیخ ایاز اور میر گل نصیر خان کی میراث ہے۔یہ امریتا پریتم اور فہمیدہ ریاض کی روایت ہے۔ خلیل الرحمن کا ادب بے ادبی کی بد ترین بلکہ متشدد شکل ہے۔ بلا شبہ عمران خان کی سیاست کی طرح،خلیل الرحمن قمر کے کھیل بہت مقبول ہوئے ہیں لیکن اس کی وجہ وہی ہے جو عمران خان کی سیاسی مقبولیت کی وجہ ہے: رجعتی بلکہ جنونی مڈل کلاس۔ایک ایسی مڈل کلاس جو وینا ملک ڈس آرڈر کا شکار ہے۔
پاکستان میں بجلی کی بڑھتی قیمتیں: آئی پی پیز کیسے لوٹ رہی ہیں؟
بجلی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے اور لوڈشیڈنگ سمیت بحران کی دیگر شکلوں کا غیر معمولی اظہار 1994ء کے بعد سامنے آنا شروع ہوا ہے۔ عالمی سامراجی اداروں کی ہدایات اور ایما پر ریاستوں نے نیو لبرل اکنامک پالیسیوں کا نفاذ 80ء کی دہائی سے شروع کیا تھا۔ اسی دوران ورلڈ بینک اور امریکی ریاست کی براہ راست مداخلت سے مختلف ملکوں نے بجلی کی پیدوار سمیت تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات سے دستبرداری اختیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا، اور ان شعبوں کی نجکاری کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
بلاسفیمی لنچنگ کا گہرا تعلق سیاسی موٹیویٹرز سے ہے: عطا انصاری
”کتاب لکھنے میں جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ مجبور یا آمادہ کیاوہ مشال خان کے بہیمانہ قتل کا واقعہ تھا۔ اس واقعہ نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ ایک نوجوان اور ہونہار یونیورسٹی طالبعلم تھا، جسے انتہائی بے دردی اور ظالمانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ اس سے قبل سلمان تاثیرکے قتل اور ممتاز قادری کو ہیرو بنائے جانے کا معاملہ بھی ہمارے سامنے تھا۔بار بار کے یہ واقعات بے حد تکلیف، پریشانی اور بے چینی کاباعث بنتے تھے۔ اس لئے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بلاسفیمی کا تنازعہ یورپ اور سکینڈے نیویاسے بھی جڑا ہوا ہے۔ کسی نہ کسی طرح سے یہ سوال اور معاملہ پاکستان، پاکستانی کمیونٹی، مسلمانوں، یورپ اور پاکستان سے بہت ہی زیادہ جڑا ہوا ہے۔“
’آپریشن عزم استحکام: ریاست کنٹرولڈ طالبانائزیشن چاہتی ہے‘
’’ہمیشہ سے ہم نے دیکھا کہ گڈ طالبان بیڈ بن جاتے ہیں اور بیڈ ایک وقت میں گڈ بن جاتے رہے ہیں۔ یہ ریاست کا اپنا بیانیہ ہے۔ اسی طرح افغان طالبان کیلئے جو گڈ ہونگے، وہ پاکستانی ریاست کیلئے بیڈ ہونگے، جو افغان طالبان کیلئے بیڈ ہونگے، وہ ان کیلئے بیڈ ہونگے، جو دونوں کیلئے بیڈ ہونگے، وہ امریکہ کیلئے گڈ ہو جائیں گے۔ یہ جو ڈرامہ چل رہا ہے ، اسے ہمیں سمجھنا چاہیے۔ اسی بنیاد پر عسکریت کا کاروبار چل رہا ہے۔ اب لوگ بھی سمجھ چکے ہیں کہ گڈ اور بیڈ کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘
شیام: اے سٹار فارگاٹن
شیام روشن خیال اور وسیع النظر انسان تھے۔ انگریزی اور اردو ادب کا وسیع مطالعہ تھا۔سعادت حسن منٹو ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ اشاعت سے پہلے منٹو اپنی کہانیاں شیام کو پڑھاتے۔دیگر قریبی دوستوں میں اداکار اوم پرکاش بھی شامل تھے۔اوم پرکاش سے لاہور میں دوستی ہوئی۔ اوم پرکاش نے ہی پہلی دفعہ فلم میں کام لینے میں مدد دی۔فلم پنجابی زبان میں تھی،نام تھا ’گوانڈھی‘ (پڑوسی،1942) جو لاہور میں بنی۔