نقطہ نظر


عورت کی آزادی ایک آزاد انسانی سماج کی متقاضی!

سرمایہ داری کے بحران نے معاشی گراوٹ، سیاسی چپقلشوں، قحط، جنگوں اور ماحولیاتی تباہی کو زیادہ بڑے پیمانے پر بڑھایا ہے۔ جبر و تشدد، ناانصافی اور استحصال کو مزید تیز تر کردیا ہے۔ دوسری طرف تیسری دنیا میں خاندانوں کو درپیش معاشی مسائل نے عورت کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ جہاں عورتیں پہلے ہی دوہرے استحصال کا شکار تھیں، وہیں ان معاشی مسائل کی زدمیں آکر تہرے استحصال کا شکار ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ گھر سے نکل کر کام کی جگہ تک ایک عورت کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا ہے جن میں ذہنی اور جنسی طور پر ہراساں کیا جانا سر فہرست ہے۔

سرمایہ داری، صنفی استحصال اور عورت کی اقتصادی حیثیت

سرمایہ دارانہ انقلاب جب اپنے جوبن پر تھا، تو اس نے محنت کش طبقے کو کچھ حاصلات دینے میں کامیابی حاصل کی۔تاہم جیسے ہی یہ نظام اپنے اندرونی تضادات میں الجھنے لگا، بحرانات نے جنم لیا اور وہی حاصلات، جو کبھی مزدور طبقے کی جیت سمجھی جاتی تھیں، یکے بعد دیگرے واپس چھینی جانے لگیں۔ آج سرمایہ داری اپنی متروکیت کے آخری مراحل میں ہے، اور اس کے زوال کی نشانیاں واضح ہو چکی ہیں۔ مارکس نے کہا تھا کہ اگر سماج کے ایک حصے پر دولت اور تعیش کا ارتکاز بڑھ رہا ہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دوسرے حصے پر محرومی اور ذلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ: آدمی اور شہر

جب کوئی ٹوبہ ٹیک سنگھ کا سوچتا ہے تو سعادت حسن منٹو کا بھی خیال آتا ہے۔ 1955 میں شائع ہونے والی ان کی ہڈیوں کو ٹھنڈا کرنے والی کہانی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘کی یاد آتی ہے، جس میں 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد ہونے والی خوفناک انسانی حالت اور مصائب کی عکاسی کی گئی تھی۔ منٹو نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نام کو امر کر دیا۔ اب منٹو کو اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کم از کم کہنے کی حد تک وہ لازم و ملزوم ہیں۔

پاکستان میں میڈیا ذرائع کو قید کرنے والی قانون سازیاں

پاکستان میں بھی بھارت، چین، مشرق وسطیٰ اور دیگر پسماندہ خطوں کی طرح میڈیا پر پابندیوں میں مزید سختی آتی جا رہی ہے۔ میڈیا ذرائع پر پابندیاں اور سنسرشپ کوئی آج کے عہد کی بات نہیں ہے۔ میڈیا سے نصاب تک ہر شعبے کو ہمیشہ سے ہی حکمران طبقات کے مفادات کی تکمیل تک کی ہی آزادی میسر رہی ہے۔ اکثریتی عوام کو حکمران طبقات کے مفادات کو تحفظ دینے والے نظام کے حق میں دلیلوں پر مبنی معلومات ہی فراہم کی جاتی رہی ہیں۔ تاہم کہیں نہ کہیں آزادی اظہار کی جدوجہد کی بنیاد پر کچھ گنجائشیں بھی حاصل کی گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ کاروباری مقاصد کے لیے ہونے والی میڈیا ذرائع کی ترقی نے میڈیا ذرائع کو اس قدر وسیع کر دیا کہ حکومتوں کے لیے میڈیا کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ماضی کے قوانین ناکافی ہوتے گئے۔یوں میڈیا ذرائع کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان میڈیا ذرائع کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین میں بھی بتدریج تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔

نو آبادیاتی شغل (کتاب) میلے

کتاب میلوں کا ’بلوچ دانش ور‘ سستی جذباتیت اور غیر حقیقی رومان پسندی پھیلا کر داد بٹورتا اور چادر جھاڑ کر اگلے میلوں کی تیاری میں جت جاتا ہے۔ طلبہ کے ہاں تجسس، غور و فکر، مزید جاننے و سمجھنے کی چاہت اور عوام سے جڑأت کی منہ زور تمنا ہوتی ہے۔ وہ داد و تحسین کی بھوک سے بے نیاز اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ گھل مل جاتا ہے۔ اس فرق کو نوآبادکار بخوبی سمجھتا ہے اس لئے کتاب میلے نوآبادیاتی طاقتوں کی آشیرباد سے ’کامیاب‘، جب کہ کتاب کاروان انہی قوتوں کے حکم پر سبوتاژ کئے جاتے ہیں۔

ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے امکانات بڑھ گئے ہیں: جلبیر اشقر

7 اکتوبر 2023 کو غزہ سے تعلق رکھنے والے مسلح گروپ حماس نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا، جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل اپنی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے اور اپنے آباد کاروں کو فلسطینی سرزمین سے نکالے۔ یہ واقعہ دہائیوں پر محیط تنازع کے سلسلے میں رد عمل کے ایک اور سلسلے کا موجب بنا، جس میں غزہ پر مسلط کی گئی اسرائیل کی ہمہ جہت جنگ میں اکتوبر2023سے دسمبر2024تک 50ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری، بالخصوص خواتین اور بچے شامل تھے۔

شناخت

ایک طرح سے اجناس والا معاملہ انسان کا بھی ہے۔پیدائش کے وقت انسان کے ہاتھ میں نہ تو آئینہ ہوتا ہے نہ ہی وہ فشٹئین (Fichtian) فلسفی ہوتا ہے جس کے لئے ”میں،میں ہوں“ کا خیال کافی ہوتا ہے۔انسان پہلے خود کو دوسرے انسان میں دیکھتا ہے اور اپنی شناخت کرتا ہے۔پیٹر اپنی شناخت اول اول اپنے جیسے پال سے موازنہ کرتے ہوئے متعین کرتا ہے۔ یوں پال،اپنی پال وادی شخصیت کے با وصف، پیٹر کے لئے انسان کی قسم بن جاتا ہے۔

10 سال میں بشار الاسد نے 5 لاکھ شامی ہلاک کر دئے، کیا یہ ’سامراج مخالفت‘ ہے؟ غالیہ بدیوی

ہمیں یہ دیکھ کر دھچکا لگا کہ شامی حکومت نے ہمارے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا، انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ اس طرح ایک پرامن انقلاب،جس میں تمام فرقوں اور مذاہب کے لوگ شامل تھے، کو حکومتی تشدد نے جنگ میں تبدیل کر دیا۔ لوگوں نے اسے انقلاب کہنا بند کر دیا، کیونکہ یہ ایک خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیاتھا۔ انقلاب نے اپنی ساکھ کھونا شروع کر دی۔ جو انقلاب آمریت کے خلاف شروع ہوا تھا، اس میں اب مختلف کھلاڑی شامل ہوچکے تھے۔ اس انقلاب کوداعش جیسے کھلاڑیوں نے استعمال کرنا شروع کر دیا اور یہ انقلاب تتر بتر ہو کر رہ گیا۔بہت سے لوگوں نے امید چھوڑ دی اور یہاں تک کہ بین الاقوامی کمیونٹی نے بھیان ایداف پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا، جو اہداف انقلاب کے آغاز میں مقرر کیے گئے تھے۔

سائنس تخلیق کا نام ہے: ارنسٹ مینڈل

تخلیقی کام کے بغیر سائنس چی معنی دارد؟ تخلیق سے عاری سائنس کو علم الکلام تو کہہ سکتے ہیں، سائنس نہیں۔ اسے طالب علم کی مشق ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔سائنس نہیں۔۔۔کہ سائنس سب سے پہلے تخلیق ہے۔ کسی نئی چیز کی تخلیق۔ نہ کہ پرانی چیزوں کو دہرانے کا نام۔

کینال منصوبہ سندھی عوام کی نسل کشی کی سازش ہے: ڈاکٹر ماروی سندھو

’پانی زندگی ہے۔ گرین پاکستان انیشی ایٹو اور کارپوریٹ فارمنگ کے لیے سندھ دریا سے 6کینال نکالنے سے سندھ کے 7کروڑ عوام کا پانی بند ہو جائے گا۔ یہ ایک قوم کی نسل کشی کی بدترین سازش ہے۔ سندھ دریا کو عالمی سطح پر ’مرتا ہوا دریا‘ کہا جا رہا ہے۔ سندھ ڈیلٹا کو ’مرتا ہوا ڈیلٹا‘ کہا جا رہا ہے۔ پہلے ہی سندھ کے پانی پر اتنی کٹوتیاں لگائی جا چکی ہیں کہ گزشتہ چند سال میں سندھ کی12فیصد زرخیز زمین سمندر نگل چکا ہے۔ لوگ زمینیں چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ترقی پسند اور جمہوریت پسند قوتوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی۔ سندھ دریا اس تہذیب کو زندگی دینے والا دریا ہے۔ آج اس خطے کا ہر شخص اس دریا کو جوابدہ ہے۔ سندھ دریا کو اور اس انسانی تہذیب اور ورثے کو بچانے کے لیے ہمیں حکمرانوں کے عزائم کو ناکام بنانا ہوگا۔‘