Day: جنوری 27، 2024


نامہ بنام نوجوان مسلم

یاد ہے آپ نومبر 2001ء میں ایک بڑے جنگ مخالف جلسے کے بعد (میرا خیال ہے گلاسگو میں) میرے پاس آئے اور آپ کا سوال تھا آیا کہ میں خدا پر ایمان رکھتا ہوں؟ میں نہ تو آپ کو لگنے والا وہ دھچکا بھولا ہوں جو میرے ‘نہ’ کہنے پر آپ کو لگا تھا نہ ہی آپ کے دوست کا جملہ (ہمارے والدین نے ہمیں آپ کے بارے میں خبردار کیا تھا) اور نہ ہی غصے سے بھرے سوالات کی بوچھاڑ جو آپ دونوں نے مجھ پر کی۔ ان سوالوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا اور یہ چھوٹی سی کتاب نہ صرف آپ بلکہ آپ ایسے دیگر تمام لوگوں کے سوالوں کا جواب ہے جو یورپ اور شمالی امریکہ میں رہتے ہیں۔ اس میں جابجا تاریخ سے مڈبھیڑ ہوتی ہے تاہم میرے خیال میں یہ کتاب کافی ثابت ہو گی۔ جب آپ سے بات ہوئی تھی تو میں نے آپ سے کہا تھا کہ مذہب اور مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں پر میں لوگوں کے سامنے تنقید کر کے زمانہ شناسی کا مظاہرہ نہیں کرتا ہوں۔ استحصال اور جوڑ توڑ کرنے والوں نے مذہب کے نام پر پارسا بن کر ہمیشہ اپنے خود غرضانہ مقاصد کو پورا کیا ہے۔ سچ ہے کہ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ یقینا دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے مخلص مذہبی لوگ موجود ہیں جنہوں نے غریبوں کے حقوق کے لیے سچ مچ لڑائی لڑی مگر عموماً ان کا منظم مذہب سے تضاد پیدا ہو گیا۔ کیتھولک چرچ نے ایسے مزدور کسان پادریوں کو نشانہ بنایا جنہوں نے جبر کے خلاف مزاحمت کی۔ ایرانی آیت الاؤں نے سماجی ترقی پسندی کی تبلیغ کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نپٹا۔