اسلام آباد (نامہ نگار) روزنامہ دنیا کی خبر کے مطابق دو دن قبل چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے حکام سے ملاقات کی جس میں چیئرمین سینیٹ کو بتایا گیا کہ ان کے علاقے نو کنڈی، چاغی میں نئی یونیورسٹی کے قیام کی منظوری دے دی گئی ہے۔
خبر کے مطابق چیئرمین سینٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ مجوزہ یونیورسٹی کے لئے ابتدائی طور پر تین ارب روپے مختص کر دئیے گئے ہیں۔ اس نئی یونیورسٹی کا نام ’عمر خان سنجرانی یونیورسٹی‘ہو گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نوکنڈی، چاغی کے علاقے میں کالج تک موجود نہیں ہے۔ ’روزنامہ جدوجہد‘ کو اپنے ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس یونیورسٹی کا منصوبہ نہیں بنایا۔ اس منصوبے کو وفاقی ترقیاتی بجٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ گو اس یونیورسٹی کا ابھی چارٹر منظور ہوا ہے (جسے بلوچستان اسمبلی نے منظور کر نا ہے) نہ فزیبلٹی رپورٹ مکمل ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس یونیورسٹی کو ’مائنز اینڈ منرلز‘ یونیورسٹی کے طور پر قائم کرنیا کا منصوبہ تھا۔
یہ بھی واضح رہے کہ موجودہ حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ کم کر دیا تھا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر طارق بنوری بجٹ میں کمی کے خلاف بیانات دیتے آئے ہیں۔ بجٹ میں کمی کی وجہ سے ملک بھر، بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی دو اہم ترین جامعات، بلوچستان یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی، شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یونیورسٹی آف گوادر کا چارٹر منظور ہوئے تین سال گزر چکے ہیں مگر اس کے لئے کوئی فنڈ مختص نہیں کئے جا رہے۔
ایک طرف سرکاری سرپرستی میں چلنے والی جامعات میں ملازمین کو دینے کے لئے تنخواہیں تک نہیں ہیں، دوسری جانب ایک ایسے علاقے میں یونیورسٹی شروع کی جا رہی ہے جہاں کالج تک نہیں۔ اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس یونیورسٹی سے مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔ اس یونیورسٹی میں مقامی لوگ زیادہ سے زیادہ کلرک اور نائب قاصد ہی بھرتی ہو سکیں گے۔
ایچ ایس سی کے ایک عہدیدار نے ’روزنامہ جدوجہد‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نوکنڈی، چاغی نہ صرف آبادی کے لحاظ سے بہت چھوٹا ہے بلکہ وہاں مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خوف سے بھی کوئی پڑھنے نہیں آئے گا۔ انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لورا لائی میں آٹھ سال قبل یونیورسٹی بنائی گئی تھی مگر وہاں طلبہ کی تعداد ہزار بارہ سو سے زائد نہیں ہو سکی۔ ان کا کہنا تھا اگر یونیورسٹی میں انرولمنٹ کالج سے بھی کم ہو تو یونیورسٹی بنانا وسائل کا غلط استعمال ہے۔
’روزنامہ جدوجہد‘ کو اپنے ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مجوزہ یونیورسٹی کے لئے چیئرمین سینٹ کے خاندان نے تیس ایکڑ زمین عطیہ کی ہے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی بطور چیئرمین مدت مارچ میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ اس سے پہلے پہلے مجوزہ یونیورسٹی پر تعمیراتی کام شروع کرا دینا چاہتے ہیں۔
یونیورسٹی کا مجوزہ نام ’عمر خان سنجرانی یونیورسٹی‘ بذات خود اقربا پروری کی نشاندہی کر رہا ہے۔ معلوم نہیں عمر خان سنجرانی (جو صادق سنجرانی کے قریبی رشتہ دار ہیں) کی کون سی اکیڈیمک خدمات ہیں جن کے اعتراف میں یونیورسٹی ہی ان کے نام سے منسوب کر دی گئی ہے۔ رہی بات زمین عطیہ کرنے کی تو یہ کسی نیک جذبے کے تحت نہیں کیا جا رہا۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والوں کی یہ پرانی تکنیک ہے کہ زمین کا عطیہ دے کر، اپنے علاقے میں ٹیکس دہنگان کے پیسے سے ترقیاتی کام کراؤ۔ اس کے بعد پورے علاقے میں زمین کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے۔
روایتی سیاستدانوں کویونیورسٹی کاایک اضافی فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ چند سو ووٹرز کو نوکریاں دلوائی جا سکتی ہیں اور ہزاروں کو نوکری کا لارا لگایا جا سکتا ہے۔