لاہور (جدوجہد رپورٹ) عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکومت پاکستان کی جانب سے مشکل اقدامات کرنے کے باوجود پروگرام کی بحالی کے معاہدے پر اتفاق نہیں کیا ہے۔ پاکستان نے پروگرام کی بحالی کیلئے امریکہ سے تعاون طلب کر لیا ہے۔
’ٹربیون‘ کے مطابق حکومت کی اقتصادی ٹیم نے امریکی سفیر ڈونالڈبلوم سے ملاقات کی اور اب تک کئے گئے اقدامات کے بارے میں واشنگٹن سے تعاون طلب کیا۔ بات چیت سے متعلق جاننے والے افراد کے مطابق امریکی سفیر کو ان اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا گیا جو پروگرام کو بحال کرنے اور معیشت میں استحکام لانے کیلئے اٹھائے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ پاشا نے امریکی سفیر سے ملاقات کی۔ امریکہ آئی ایم ایف میں سب سے بڑا شیئر ہولڈر ہے اور ماضی میں بھی اس نے فنڈ کے پروگرام کے جائزوں کو مکمل کرنے میں اسلام آباد کی مدد کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
امریکی سفیر کو بتایا گیا کہ حکومت نے مشکل وقت کے باوجود مالیاتی استحکام کو مجموعی ملکی پیدوار کے 2.2 فیصد کے برابر تجویز کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات کے تین اہم ادوار اور متعدد ورچوئل رابطوں کے باوجود آئی ایم ایف نے جمعرات کی سہ پہر تک پاکستان کے ساتھ اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کے مسودے کا اشتراک نہیں کیا ہے۔
گزشتہ حکومت کے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کے بعد پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام رواں سال مارچ سے پٹڑی سے اترا ہوا ہے۔
ایک سینئر پاکستانی مذاکرات کار کا کہنا ہے کہ حکومت پروگرام کو بحال کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور بہت سے غیر مقبول اقدامات اٹھائے ہیں لیکن پھر بھی آئی ایم ایف کی توقعات سے کم ہے۔
آئندہ دو روز میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کی صورت سیکرٹری خزانہ اور وزیر خزانہ آئی ایم ایف کی اعلیٰ انتظامیہ سے ملاقات کیلئے امریکہ جا سکتے ہیں۔
مخلوط حکومت کو امید تھی کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری کیلئے عمل شروع کرنے کے بعد آئی ایم ایف عملے کی سطح پر معاہدہ کرنے پر رضا مند ہو سکتا ہے۔
تاہم آئی ایم ایف نہ صرف تنخواہ دار طبقے کیلئے انکم ٹیکس کی شرح میں کٹوتی کا خواہاں ہے، بلکہ تنخواہ دار لوگوں پر 125 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
حکومت نے اب ایک نئی تجویزپر کام کیا ہے جس میں 47 ارب روپے کے ٹیکس ریلیف کو تبدیل کرنا اور پھر تنخواہ دار طبقے پر 18 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنا شامل ہے۔
گزشتہ حکومت نے جولائی سے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھانے کا عزم کیا تھا اور فروری 2022ء کے آخر تک ذاتی انکم ٹیکس اصلاحات کا مسودہ آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی تھی۔ تحریک انصاف نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے تھے۔
نئی حکومت ایندھن کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ کر چکی ہے اور تمام سبسڈی ختم کر چکی ہے۔ تاہم آئی ایم ایف اب پٹرولیم لیوی اور سیلز ٹیکس کو موجودہ قیمتوں پر دوبارہ متعارف کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔