قیصر عباس
(واشنگٹن ڈی سی) پاکستان اور بنگلہ دیش کو الگ ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین بہتر تعلقات کا آغاز کیا جائے۔ جب دنیا کے دوسرے ملک صدیوں کی دشمنی کے بعد دوست بن سکتے ہیں تو جنوبی ایشیا کے ان دو ملکوں کو بھی دوستی کی جانب قدم اٹھا نا چاہئے۔
بنگلہ دیش کے معروف صحافی اور دانشور شاہد العالم نے ان خیالات کا اظہار امریکہ میں ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ اور واشنگٹن کے تھینک ٹینک ولسن سنٹر کے زیراہتمام 25 جولائی کوسالانہ عاصمہ جہانگیر لیکچر سیریز میں کیا۔ ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے ایگزیکٹو ڈائرکٹر قیصر عباس نے مقرر کا تعارف کرایا اور بورڈ ممبر آفتاب صدیقی کے ساتھ ورچوئل پینل میں حصہ لیا۔ ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ، ولسن سنٹر کے ڈائرکٹر مائیکل کوگل مین نے پروگرام کی نظامت کی۔
شاہد العالم کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین تاریخی اور ثقافتی رشتے موجود ہیں اوردونوں ملکوں کوباہمی گفت وشنید کے ذریعے ماضی کی تلخیوں کا ازالہ کرنا چاہئے کیوں کہ ”دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور سیاسی تعلقات بحال کرنا وقت کی اہم ٖضرورت ہے۔“ ان کے خیال میں دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے لیے نرم گوشے رکھتے ہیں اور مثبت تعلقات کے حامی ہیں لیکن سیاست دان نہیں چاہتے کہ ہمارے تعلقات بحال کیے جائیں۔ انہوں نے عوام کی امنگوں کو یرغمال بن بنا لیا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ عوام دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کا مطالبہ کریں۔
ان کے مطابق نہ صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں سے تاریخی او ثقافتی رشتوں سے جڑا ہوا ہے اور علاقائی امن کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اور دوسرے ملکوں سے اچھے تعلقات استوار کیے جائیں۔ ان کے خیال میں ”پاکستان اور بھارت کے علاوہ دوسرے جنوبی ایشیا ئی ممالک کوبھی خطے کے دوسرے ملکوں سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔“
اپنے ملک کی سیاسی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں سیکولرزم آئین کا بنیادی ستون تھا مگر جون 1988ء میں اسے تبدیل کر کے آرٹیکل 2A کے ذریعے اسلامی ریاست میں تبدیل کر دیا گیا اور اب یہ جن بوتل سے باہر آ گیا ہے۔
ملک میں منتخب آمرانہ نطام کے تحت دو سیاسی پارٹیاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں۔ سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات، تشدد اور اغوا کے واقعات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں اور ملک میں کرپشن اور دھاندلیوں کے سہارے سیاسی پارٹیاں انتخابات جیتنے کی کوشش کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی ان سب ناانصافیوں اور انسانی حقوق کی خلا ف ورزیوں کے باوجود ملک میں مزاحمت جاری ہے اور میں پر امید ہوں کہ ایک دن بنگلہ دیش میں ترقی اور جمہوریت کا سورج ضرور نکلے گا۔
شاہد العالم فوٹو جرنلسٹ، انسانی حقوق کے کارکن اور دانشور کی حیثیت سے عالمی سطح پرجانے جاتے ہیں۔ انہیں 2018ء میں حکومت کے خلا ف ایک مظاہرے کی تصویریں بناتے ہوئے گرفتار کیا گیاتھا اور عالمی اداروں کے پرزور احتجاج کے نتیجے میں کئی ماہ بعد رہا کیا گیا۔ وہ ساؤتھ ایشین میڈیا انسٹی ٹیوٹ، ڈرگ ایجنسی اور بنگلہ دیش فوٹوگرافک سوسائٹی سمیت صحافیوں اور فوٹوگرافروں کے کئی مراکز کے بانی ہیں۔
کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کے ساتھ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں My Journey as a Witness'” ” اور "The Tide will Turn” مشہور تصنیفات ہیں۔ ان کی تصاویر کی نمائش دنیا کے مشہور اداروں کے زیر اہتمام منعقد کی جا چکی ہیں اور وہ انسانی حقوق پر ہارورڈ، کیمرج، اسٹینفرڈ اور دیگر ینیورسٹیز میں انسانی حقوق کے موضوعات پر خطاب بھی کر چکے ہیں۔
لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس آن لائین لیکچر میں حصہ لے کربنگلہ دیش اور جنوبی ایشیا کے مسائل پر سوالات کئے۔ ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ اور ولسن سنٹر پانچ برسوں سے اس لیکچر سیریز کے ذریعے عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق کی جدوجہدکوقائم رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔