فاروق سلہریا
عارف رشید کا کہان ہے ”حسینہ واجد کا ساتھ دے کر بنگلہ دیش کے بائیں بازو،بالخصوص کیمونسٹ پارٹی بنگلہ دیش نے اپنی ساکھ ختم کر لی ہے۔ بائیں بازو میں اگر کسی کی کوئی ساکھ بچی ہے تو وہ لوگ ہیں جو کسی گروہ کا حصہ نہیں“۔
عارف رشید(فرضی نام) بائیں بازو کے سیاسی کارکن ہیں۔ پیر کی شام،دیر گئے ’جدوجہد‘ نے ان سے ایک مختصر انٹرویو کیا،جس کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں (بدھ کے روز یہ متن شائع ہونے تک ممکن ہے صورت حال کافی بدل چکی ہو)۔
جدوجہد: حسینہ واجد اچانک استعفٰی دے کر ملک سے ہی فرار ہو گئیں۔ یہ سب کیسے ہوا؟
عارف رشید:اچانک تو نہیں ہوا۔ پورا جولائی کا مہینہ یہ تحریک چلی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے،یہ تحریک سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہوئی۔ابو سعید نامی ایک طالب علم کو پولیس نے ہلاک کر دیا جس کے بعد تحریک میں شدت آئی۔ اس شدت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حسینہ واجد نے طالب علموں کو رضا کار بولا۔بنگلہ دیش میں اس کا مطلب ہے غدار۔
دوسرا،حسینہ واجد کا دور مسلسل بڑھتے ہوئے جبر کا دور تھا۔ وہ مسلسل جبر سے کام لینے کی عادی ہو چکی تھیں۔ساتھ ساتھ ان کا تکبر۔ اگر تو وہ ابو سعید کی ہلاکت پر یہ اعلان کرتیں کہ ہلاک ہونے والے طالب علم کی ہلاکت پر متعلقہ پولیس مین کو سزا ہو گی۔معاملات کو ٹھندا کرنے کی کوشش کی جاتی۔ہلاکت پر معافی مانگی جاتی تو یہ صورت حال شائد نہ بنتی۔
مزید یہ کہ اگر حسینہ فرار نہ ہوتیں تو ہجوم کے ہاتھوں ان کی لنچنگ ہو جاتی۔مظاہرین کے ذہن میں شروع سے سری لنکا کا تصور تھا کہ جس طرح راجا پاکسے کے محل پر لوگوں نے قبضہ کیا، اسی طرح وہ سر ی لنکا کا تجربہ ڈھاکہ میں دہرانا چاہتے تھے۔آپ نے دیکھا ہو گا لوگ کس طرح وزیر اعظم ہاوس میں گھس گئے۔
ایک اور بات: یہ صرف طلبہ تحریک نہیں۔ اس تحریک میں مزدور بھی شامل تھے۔ منظم ٹریڈ یونین والا مزدور تو نہیں مگر ہر طرح کا محنت کش۔خود طلبہ نمائندوں کا کہنا ہے کہ یہ طلبہ مزدور انقلاب ہے۔یہاں، شام گئے حالات اچھے نہیں۔ عوامی لیگ کے دفاتر وغیرہ پر جوابی حملے ہو رہے ہیں۔ لوٹ مار کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔
جدوجہد:پاکستان میں کمرشل میڈیا، جماعت اسلامی اور دائیں بازو کے لوگ شیخ مجیب کے مجسموں پر حملوں کی ویڈیو دکھا کر خوشیاں منا رہے ہیں۔یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بنگلہ دیش میں بھی شیخ مجیب کو غدار قرار دیا جا رہا ہے۔
عارف رشید: 1971 کی بنگلہ دیشی شناخت پر کسی کو کسی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستانی جماعت اسلامی کو شائد ابھی یہ خبر نہیں ملی۔
حسینہ واجد نے جگہ جگہ شیخ مجیب کے مجسمے لگائے۔ حسینہ حکومت ہر بات میں شیخ مجیب کا ذکر کرتیں۔ اپنے اقتدار کو جواز بخشنے کے لئے وہ شیخ مجیب کو بیچ میں لاتیں۔ شیخ مجیب کے مجسموں یا شیخ مجیب میوزیم پر حملہ کچھ تو ان عناصر کی کاروائی ہو سکتا ہے جنہیں شیخ مجیب سے مسئلہ ہے۔
کچھ یہ وہ نوجوان نسل کے لوگ ہو سکتے ہین جو حسینہ واجد کو شیخ مجیب سے جوڑ رہے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ طلبہ تحریک نے 1971 کی شناخت کو مضبوط کیا اور اسے ایک اگلے مقام تک لے آئے۔ جب حسینہ واجد نے طلبہ کو رضا کار کہا تو طلبہ کا نعرہ بن گیا: میں بھی رضا کار،تم بھی رضا کار،ہم ملک لوٹنے والے فسطائیوں سے لڑ رہے ہیں۔ گویا انہوں نے جو غدار اور محب وطن والا کھیل تھا، ختم کر دیا۔
جدوجہد: فوج کے قبضے بارے بتائیں۔
عارف رشید: (ہنستے ہوئے)بنگلہ دیش کی فوج عبوری حکومتیں بنانے کی مہارت رکھتی ہے۔ اچھے انداز میں بھی۔برے انداز میں بھی۔ مارشل لا تو نہیں لگا۔ عبوری حکومت بنے گی۔ادہر طلبہ کل (منگل کے روز) پریس کانفرنس کریں گے۔ ابھی تک افواہ یہ ہے کہ طلبہ نے فوجی سر براہ سے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ صدر سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس سب سے قطع نظر، طلبہ حزب اختلاف کے 31 نکات پر عمل درآمد کی بات کرتے آئے ہیں۔ اس منشور کا مقصد یہ ہے کہ ریاست کو جمہوری بنایا جائے۔ جبر کا خاتمہ ہو۔مختلف طرح کی اصلاحات ہوں۔طلبہ اس ملک کو آگے لے کر جا سکتے ہیں۔ ہو گا کیا،یہ ابھی دیکھنا ہو گا۔
جدوجہد: پاکستان میں لبرل اور بعض بائیں بازو کے لوگ سمجھ رہے ہیں کہ حسینہ واجد کی شکست مذہبی جنونیوں،بالخصوص جماعت اسلامی کی فتح ہے۔ پھر یہ کہ فوج نے قبضہ کر لیا ہے۔ بائیں بازو کا کیا موقف ہونا چاہئے؟
عارف رشید:حسینہ واجد محض اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے جماعت اسلامی کا کارڈ استعمال کرتی رہی ہیں۔ وہ یہ بتاتی رہیں کہ اگر وہ نہ رہیں تو جماعت اسلامی یا مذہبی بنیاد پرست آ جائیں گے۔ اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے کتنے ووٹ ہیں؟ پانچ فیصد کے لگ بھگ۔ موجودہ تحریک میں وہ شامل ضرور تھی۔ سب ہی شامل تھے۔۔۔لیکن جماعت اس تحریک میں ایک معمولی طاقت تھی۔
بایاں بازو بھی اسی جواز پر حسینہ واجد کے ساتھ اتحاد بنا کر چلا۔بائیں بازو نے اپنی ساکھ ختم کر لی ہے۔ حسینہ واجد کا ساتھ دے کر بائین بازو بالخصوص کیمونسٹ پارٹی بنگلہ دیش نے اپنی ساکھ ختم کر لی ہے۔ بائیں بازو میں اگر کسی کی کوئی ساکھ بچی ہے تو وہ لوگ ہیں جو کسی گروہ کا حصہ نہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔