دنیا

لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کا خواب بھارت کیساتھ معاشی شراکت داری میں تبدیل

حارث قدیر

افغانستان کی طالبان حکومت نے دہلی کے لال قلعے کو فتح کرنے کا پاکستانی منصوبہ ترک کر کے بھارت کو خطے کا ایک اہم ملک اور معاشی شراکت دار قرار دیا ہے۔ طالبان کی وزارت خارجہ کا یہ بیان بھارتی سیکرٹری خارجہ اور طالبان کے قائمقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے مابین دبئی میں ہونے والی ایک ملاقات کے بعد سامنے آیا۔

اگست2021میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان حکومت اور نئی دہلی کے درمیان یہ اعلیٰ سطح پر ہونے والے پہلے مذاکرات تھے۔ ان مذاکرات میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو وسعت دینے اور ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے تجارت بڑھانے جیسے امور پر تبالہ خیال ہوا۔

بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ نئی دہلی افغانستان میں ترقیاتی کاموں سمیت تجارتی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔

واضح رہے کہ بھارت سمیت کسی بھی ملک نے اب تک افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ البتہ بھارت ان کئی ممالک میں شامل ہے جن کے کابل میں مشن کام کر رہے ہیں۔خطے کے دیگر اہم ملکوں چین اور روس نے بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ افغانستان میں سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے تیار ہیں۔

تاہم طالبان کے سٹریٹیجک پارٹنراور اہم ترین ہمسایہ ملک پاکستان کے نئے افغان حکمرانوں کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔حکومت پاکستان اور عسکری حکام کو افغانستان میں امریکہ نواز حکومت سے جو گلے شکوے تھے، اب معمولی تبدیلی کے ساتھ اپنے تذویراتی شراکت داروں سے بھی اسی نوعیت کے گلے شکوے کیے جا رہے ہیں۔

طالبان کی فتح کو گلوریفائی کرنے والے پاکستان کے سول اور عسکری حکمرانوں کی امیدیں جلد ہی ٹوٹتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اسلام آباد کی جانب سے بارہا یہ الزامات لگائے جاتے رہے ہیں کہ اس کی حدود میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال ہوتی ہے۔ تاہم طالبان کی افغان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

طالبان اور پاکستانی فورسز کے مابین سرحدی جھڑپوں، سرحد بند کرنے سمیت دیگر نوعیت کے تنازعات بھی وقتاً فوقتاً ابھرتے رہتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے ماضی کی طرح اس بار بھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار ہی کیا جاتا ہے۔ واخان راہداری سے وسط ایشیاء کے ساتھ براہ راست تعلق استوار کرنے کے پاکستانی خواب کو بھی پاکستان نے چکنا چور کر دیا ہے۔

یوں دہائیوں سے چلنے والی سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی، طالبان کو اقتدار میں لانے کی کوششیں اور ان پر کی جانے والی ساری سرمایہ کاری ماضی کی تمام پالیسیوں کی طرح اب الٹی پڑ چکی ہے۔ امریکہ نواز افغان حکومت سے پاکستانی عسکری اور سیاسی حکام کا یہ شکوہ بھی رہتا تھا کہ وہ بھارت کے بہت قریب ہے۔ بھارت کو جاسوسی اور پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لیے مدد فراہم کر رہی ہے۔ اب جلد ہی اپنی تذویراتی شراکت داروں کے لیے بھی اسی نوعیت کا الزام سننے کو ملنے کے امکانات روشن ہیں۔

مجموعی طورپر افغانستان کو بفر زون، پانچویں صوبے سمیت اپنی ایک نوآبادی اور طالبان عسکریت پسندوں کو اپنا سپاہی سمجھنے والے پاکستانی حکام کو اب نئی اصطلاحات سوچنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ تاہم ماضی کے تجربات کو سامنے رکھا جائے تو نئی بننے والی پالیسی اور حکمت عملی بھی کم و بیش ویسی ہی ہوگی، جیسی ماضی میں بنائی جاتی رہی ہیں، یعنی پالیسی جو بھی بنے، اس کا واپس الٹا پڑنا یقینی ہوگا۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔