تاریخ

سوشلسٹ کیوبا سے سیکھو: سیاہ فاموں کی آزادی انقلاب کے بغیر ممکن نہیں

ثوبان احمد

کیوبا امریکہ کے جنوب میں واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اس کی 30 فیصد آبادی سیاہ فام ہے۔ ان کو یورپی کالونیلسٹ مغربی افریقہ سے غلام بنا کر کریبین جزائر لے کر آئے تھے۔ 1959ء میں کیوبا میں فیدیل کاسترو اور چی گویرا کی قیادت میں ایک سوشلسٹ انقلاب آیا۔

انقلاب کی جدوجہد میں ان کے ساتھ سیاہ فام کیوبن بھی شامل تھے۔ انقلاب سے پہلے کیوبا میں بھی سیاہ فاموں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوتا تھا جیسا امریکہ میں ہوتا تھااور آج تک ہوتا ہے۔ سیاہ فام اور سفید فام کیوبن میں ایک گہری خلیج حائل تھی۔ اقتدار میں آتے ہی فیدیل کاسترو نے سیاہ فاموں کے خلاف امتیاز کا خاتمہ کیا۔ نسل پرستی کے خلاف قانون سازی ہوئی اور سیاہ فاموں کی ترقی کے لیے حکومت نے لٹریسی پروگرامز پر خصوصی توجہ دی۔

دوسری جانب امریکی سیاہ فاموں کو یہی سب حاصل کرنے کے لیے سول رائٹس کی لمبی تحریک چلانا پڑی۔ جب امریکہ میں محمد علی باکسر اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک سے دل برداشتہ ہو کر اپنا گولڈ میڈل دریا میں پھینک رہا تھا کیوبن سیاہ فام اس وقت پہلی مرتبہ مفت تعلیم حاصل کر رہے تھے اور پہلی بار مفت علاج کی سہولیات سے استفادہ کر رہے تھے۔

جب امریکہ میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور مالکم ایکس کو سیاہ فاموں کے حقوق کی جدوجہد کرنے پر قتل کیا جا رہا تھا اس وقت کیوبن سیاہ فام سپورٹس، میوزک، آرٹ اور کیوبن پولیس اور فوج میں اپنا نام بنا رہے تھے۔ کئی کیوبن سیاہ فام چی گویرا کے ساتھ جا کر کانگو اور تنزانیہ وغیرہ میں وہاں کے محکوم سیاہ فاموں کو آزادی دلانے کی کوشش کر رہے تھے۔

1960ء میں فیدیل کاسترو جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے نیویارک آئے تو دیگر عالمی رہنماؤں کے برعکس کسی اچھے ہوٹل میں ٹھہرنے کی بجائے سیاہ فاموں کے علاقے ہارلیم میں قیام کیا۔ وہاں فیدیل سے ملنے کے لیے سیاہ فاموں کا جم غفیر جمع ہو گیا۔ مالکم ایکس اور دیگر سیاسی کارکنوں نے بھی کاسترو سے ملاقات کی۔ مالکم ایکس کے ساتھ کاسترو کی تصویر اْن ہی دنوں کی ہے۔

فیدیل کاسترو نے ہمیشہ امریکی سول رائٹس تحریک کی حمایت کی اور ساؤتھ افریقی اپارتھائیڈ کی مخالفت کی۔ اپارتھائد کو ختم کرنے کے لیے نہ صرف ہر جگہ آواز اٹھائی بلکہ نیلسن منڈیلا کی پارٹی افریقن نیشنل کانگریس کی عملی طور پر مدد کی۔

جب انگولا میں آزادی کی تحریک چل رہی تھی تب امریکی حمایت و تعاون کے ساتھ ساؤتھ افریقی نسل پرست حکومت نے انگولا پر حملہ کیا اور فیدیل کاسترو نے سوویت یونین سے بھی پہلے انگولا کے دفاع کے لیے کیوبن فوج انگولا بھیجی۔ انگولا کی آزادی میں کیوبا کا بہت بڑا حصہ ہے اور افریقہ میں آج بھی فیدیل کاسترو کو ایک اہم رہنما کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے آزادی کی تحریکوں اور قدرتی آفات کے مواقع پر افریقی ممالک کی مدد کی۔

جب باراک اوباما امریکہ کے صدر بنے تب سیاہ فام کیوبنز نے بھی جشن منایا۔ غالباً ان کا خیال ہوگا کہ اب ایک سیاہ فام امریکہ کا صدر بن گیا ہے تو شاید کیوبا کے لیے مشکلات کم ہو جائیں گی۔ یا یہ کہ سیاہ فام صدر کیوبا پر عائد پابندیاں اٹھا دے گا۔

وقت نے ثابت کیا کہ امریکی سامراجی نظام میں اگر کوئی سیاہ فام بھی امریکہ کا صدر بن جائے تو نہ اس سے عام سیاہ فام کی حالت میں کوئی فرق پڑتا ہے بلکہ امریکی خارجہ پالیسی میں بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ جنگوں، ڈرون حملوں، اکنامک پابندیوں اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی فوجی پالیسی ویسے ہی جاری رہتی ہے۔

Soban Ahmed
+ posts

ثوبان احمد طالب علم ہیں۔ انہیں علمِ سیاسیات سے گہرا شغف ہے۔