ثوبان احمد
مینار پاکستان پر 14 اگست کو پیش آنے والے واقعہ کے بعد، ’حسب معمول‘، دائیں بازو کی جانب سے وکٹم بلیمنگ کا سلسلہ شروع ہے۔ ہجوم کے ہاتھوں ہراساں ہونے والی ٹک ٹاکر عائشہ کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے انہوں نے لوگوں کو جان بوجھ کر ورغلایا۔ کسی کا خیال ہے انہوں نے شہرت کے لئے ایسا کیا۔ گو ہزار منہ اور ہزار باتیں۔
اس سیاق و سباق میں چند گزارشات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں:
روزی گیبرئل پاکستان میں آزادی کے ساتھ پبلک پلیسز پر گھوم سکتی ہے اور اسے کوئی ہراساں نہیں کرے گا۔ سنتھیا رچی پاکستان کی سڑکوں پر سائیکل چلا سکتی ہے، ایوا زوبیک پورا پاکستان گھوم سکتی ہے ٹرک والوں سے لفٹ لے کر سفر کر سکتی ہے، یہ خواتین سڑک کنارے ڈھابوں پر بیٹھ کر کھانا کھا سکتی ہیں اور کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ اِن کو کچھ کہہ سکے۔ اس لئے کہ یہ طاقتور خواتین ہیں اور ہراساں کرنے والے طاقتور خواتین سے بہت گھبراتے ہیں۔
ان کے پاس طاقت آتی ہے ان کے پاسپورٹ سے، ان کے سلیبریٹی سٹیٹس سے اور اس بات سے کہ یہ جس معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں وہاں ہراسانی کو فوری رپورٹ کیا جاتا ہے لہٰذا اگر کوئی ان کو ہاتھ لگائے گا تو یہ رپورٹ کرنے سے نہیں ہچکچائیں گی اور ان کی ایک شکایت پر ریاستی مشینری حرکت میں آ جائے گی، ان میں سے کچھ کے مقتدرہ سے تعلقات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔
پاکستان میں خواتین کی اکثریت اس طاقت سے محروم ہونے کی وجہ سے ہراس کرنے والوں کے لیے ایک سافٹ ٹارگٹ ہیں۔ زیادہ تر خواتین کے گھر والے ہی ایسے واقعات رپورٹ کرنے سے گریز کرتے ہیں اور رپورٹ کر بھی دیں تو ایسے مقدمات ریاستی اداروں کے لئے ترجیح نہیں رکھتے تا آنکہ انصاف کے لیے کوئی منظم سوشل میڈیا مہم نہ چلائی جائے۔
یہی عام پاکستانی عورت دبئی، ملائشیا یا ترکی میں ہو اور یہی ہراس کرنے والے مرد حضرات بھی ان ملکوں میں موجود ہوں تو وہاں یہ اْن خواتین کو نہ ہاتھ لگا سکیں گے نہ کوئی فقرہ کس سکیں گے۔ وہاں یہ روبوٹ بن جائیں گے۔ اس لئے کہ وہاں خواتین زیادہ طاقتور ہونگی، اْن کی طاقت اس بات سے جنم لے گی کہ پولیس اور معاشرہ ان کا ساتھ دیں گے۔ کوئی پاکستانی مرد کتنا بھی بڑا ہراسر ہو پاکستان سے باہر وہ’روبوٹ‘ بنا دیا جاتا ہے۔
خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کا تعلق دیگر عوامل کے علاؤہ طاقت سے بھی ہے۔ یہ طاقت طبقے اور سٹیٹس سے حاصل ہوتی ہے۔ بعض اوقات غیر ملکی نیشنل خواتین یا اپر کلاس سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی ریپ یا ہراسمنٹ کا نشانہ بن جاتی ہیں اگر موٹر وے کی طرح اندھیری اور سنسان جگہ ہو جس میں مجرم کو پکڑے نہ جانے کا یقین ہو، یا پھر ان کو نشانہ بنانے والا مجرم ظاہر جعفر کی طرح خود بھی طاقتور طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ جو خواتین جتنے پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتی ہیں، اْن کے جرائم کا نشانہ بننے کے امکانات اْتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔
ان جرائم میں کمی تب ہی آ سکتی ہے جب خواتین طاقتور ہوں، خودمختار ہوں اور با اختیار ہوں، اور اْن کے پیچھے قانون ریاست اور سوسائٹی کھڑی ہو تو پھر مینارِ پاکستان پر چار ہزار اوباش بھی جمع ہوں تو وہ ایسی کوئی حرکت کرنے سے پہلے دس مرتبہ سوچیں گے۔