ثوبان احمد
جرمنی میں یہودیوں کا قتل عام ہولوکاسٹ قانون کے عین مطابق ہو رہا تھا۔ یہودیوں کی شہریت جرمن رائخ سٹاگ (پارلیمنٹ) نے منسوخ کی تھی بلکہ تمام ہی امتیازی قوانین پارلیمنٹ سے پاس ہوئے تھے۔ ہٹلر کے دور میں کسی یہودی کو پناہ دینا قانوناً جرم تھا لیکن یہ جرم کئی جرمن شہریوں نے کیا۔
اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں سب سے مشہور نام آسکر شنڈلر ہے جو ایک درمیانے درجے کا جرمن صنعتکار تھا (شہرت یافتہ انگریزی فلم شنڈلرز لسٹ اسی کے بارے میں ہے)۔ اُس نے اپنی فیکٹری میں بہت سے یہودیوں کو ملازم رکھ کر پناہ دی اور ان کے لیے بلیک مارکیٹ سے خوراک کا بندوبست کرتا تھا تاکہ رجسٹرڈ ملازمین سے زیادہ لوگوں کی خوراک خریدنے پر حکومت کو خبر نہ ہو جائے۔ اس قانون شکنی کی بدولت آسکر شنڈلر گیارہ سو انسانوں کی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
اسی طرح روزا پارکس ایک امریکی سیاہ فام خاتون تھیں جنہوں نے انیس سو پچپن میں امریکہ میں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفید فام اور سیاہ فام افراد کے لیے الگ نشستوں کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ اُن دنوں سیاہ فام افراد سفید فام افراد کی برابر والی نشست پر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ ان کے لئے بس کے پچھلے حصے میں ایک سیکشن مخصوص ہوتا تھا۔ روزا پارکس ایک دن سفید فام افراد کے مخصوص سیکشن میں جا کر بیٹھ گئیں۔ جب بس ڈرائیور نے ان کو سیٹ سے ہٹنے کا کہا تو روزا پارکس نے انکار کیا اور اس قانون شکنی پر گرفتار ہوئیں۔ ان کی قانون شکنی پر ایک زبردست تحریک چلی۔ ایک سال تک سیاہ فام لوگوں نے بس میں بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں یہ غیر انسانی اور امتیازی قانون ختم کرنا پڑا۔
آسکر شنڈلر اور روزا پارکس اپنے اپنے معاشرے کے قانون شکن تھے لیکن تاریخ کی عدالت میں یہ سرخرو ٹھہرے۔ آج آسکر شنڈلر کو عظیم انسان دوست اور روزا پارکس کو امریکہ کی پہلی سول رائٹس کارکن مانا جاتا ہے۔
امتیاز پر مبنی کوئی بھی قانون کسی صحت مند معاشرے میں نہیں بن سکتا اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف جو بھی قانون ہوگا وہ غلط ہوگا۔ ایسے افراد جو خود کو آسکر شنڈلر اور روزا پارکس جیسی صورتحال میں پاتے ہیں اور انسان دشمن قوانین پر عمل کرتے ہیں یا ایسے قوانین کی کسی بھی درجے میں حمایت کرتے ہیں وہ تاریخ کی غلط جانب کھڑے ہوتے ہیں۔
تمام انسان دشمن قوانین اسی لائق ہوتے ہیں کہ ان پر عمل نہ کیا جائے۔ غیر انسانی قوانین منظور کرنے والا معاشرہ آپ کو ایسے قوانین کی خلاف ورزی پر کوئی بھی لقب دے‘ تاریخ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد رکھے گی۔ کم از کم تاریخ کا سبق یہی ہے۔