سماجی مسائل

امریکہ میں ’پیارے سفید لوگو‘ کی مقبولیت!

قیصر عباس

ایک امریکی ٹی وی کے مطابق نیٹ فلکس کی ٹی وی سیریز ”پیارے سفید لوگو“ (Dear White People) کی مقبولیت حالیہ مظاہروں کے بعد 329 فیصد بڑھ گئی ہے۔

’ایم ایس این بی سی‘ ٹی وی کے ایک ٹاک شو میں سیریز کے ڈائرکٹر جسٹن سیمن (Jiustin Semiem) نے بتایا کہ اس پروگرام میں ایک اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی میں جہاں سفید فام طلبہ کی اکژیت ہے، سیاہ فام طالب علموں کی کہانیوں کے ذریعے ان کے ساتھ متعصب سلوک کو بیان کیا جاتا ہے۔

سیریز میں دکھایاگیا ہے کہ افریقی النسل طلبہ کس طرح کلاس روم یا کیمپس میں امتیازی سلوک کا روزانہ کی بنیاد پر شکار ہوتے ہیں۔ سیریز میں سیاہ فام طلبہ کے دوسرے طالب علمو ں کے ساتھ تعلقات اور دوستیوں کے ذریعے اقلیتوں، عورتوں، استحصال زدہ لوگوں اور اور جنس کی بنیاد پر تعصب کے مسائل کواجاگرکیا جاتاہے۔

اس سیریز کا بنیادی خیال اسی نام پر بنائی گئی ایک فلم سے لیاگیا ہے جس میں یونیورسٹی کیمپس کی ایک پارٹی میں افریقی النسل لوگوں کے خلاف شرکا کے رویے کے مسئلے کودکھایا گیاہے۔

میں خود امریکی یونیورسٹیز میں انتظامیہ کا حصہ رہا ہوں اور اس دوران ہمیں اقلیتی طلبہ اور طالبات کے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایتوں کاروزانہ کی بنیاد پر سامنا کرنا پڑتا تھا۔

ایک یونیورسٹی میں جہاں میں اقلیتی پروگرام (Multicultural Affairs) کا ڈائریکٹر رہا، کلاس روم میں پروفیسروں کے نہ صرف سیاہ فام بلکہ لاطینی امریکی، ایشیائی نژاد امریکیوں اور دوسرے ملکوں کے طالب علموں کے ساتھ نارواسلوک، تبصرے اورکم تر گریڈنگ کی شکایات ملتی رہتی تھیں۔

امریکہ کی ایک جنوبی ریاست کی اس پبلک یونیورسٹی میں سیاہ فام طلبہ کے خلاف دیواروں پر چاکنگ پر ہماری تفتیش ایک معمول بن چکی تھی لیکن ہماری رپورٹوں اور یونیورسٹی انتظامیہ سے مذاکرات کے باوجود یونیورسٹی کوئی حکمت عملی بنانے پر راضی نہیں تھی۔ احتجاجاً مجھے اس رویے کے خلاف اپنی ملازمت سے استعفیٰ دینا پڑا۔

یہاں اعلیٰ درسگاہوں میں استحصال زدہ شہریوں کے ساتھ بڑی نفاست کے ساتھ ناروا اور غیرانسانی سلوک کے لیے ایک اصطلاح ’مائیکرو ایگریشن‘ (Micro Aggression) بھی استعمال کی جاتی ہے جس کا مطلب کسی بھی نچلے درجے کے سماجی گروپ کے بارے میں براہِ راست یا بالواسطہ تبصرے، ناروا سلوک یا ان کی ہتک کرنا ہے۔

اس قسم کا سلوک مختلف انداز میں ان گروپس کے طلبہ کو کم گریڈ دینا، کلاس میں کچھ اقلیتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں کم تر قرار دینا یا کسی ایک گروپ کو کسی دوسرے کے مقابلے میں بہتر ثابت کرنا عام طریقے ہوتے ہیں۔ مثلا یہ کہنا کہ ”سیاہ فام آبادیاں امریکہ میں جرائم کا مرکز ہیں“ جو کہ صحیح نہیں، اس اقلیت کی تذلیل کا صرف ایک طریقہ کار ہے۔

امریکہ میں پولیس تشدد کے خلاف بڑھتے ہوئے عالمی ردِ عمل اور مظاہروں نے جو رخ اختیار کیا ہے، وہ اب پاپولر کلچر کا حصہ بھی بن گیا ہے اور اس سیریز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اس کا ثبوت ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تحریک کے ملکی سیاست، ریاستی اداروں اور سماجی رویوں پر کیا اثرات پڑتے ہیں اور کیا یہ احتجاج اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کرنے کی کسی موثر پالیسی کی تشکیل میں کامیاب ہوگا؟

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔