سرمد خواجہ
پچھلے ہفتے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کے 7 فیصد اور پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) کے 10 فیصد حصص بیچ دئیے جائیں گے۔ نجکاری کا یہ فیصلہ اس کہانی کا پول کھول دینے کے لئے کافی ہے جو حکومت نجکاری کرنے کے لئے لوگوں کو سناتی آ ئی ہے۔
حکومت یہ کہانی سناتی آ رہی ہے کہ نجکاری کا مقصد بجٹ خسارہ کم کرنا ہے۔ مطلب یہ کہ قومی ملکیت میں چلنے والے ادارے خسارے میں چل رہے ہیں، ان کی کارکردگی اچھی نہیں اور یہ ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔
(پرائیویٹائزیشن کمیشن کی ویب سائٹ پر) حکومتی موقف بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ان اداروں سے نجات حاصل کر کے ”مالی بوجھ کم کیا جا سکتا ہے“ اور ”بجٹ خسارہ کم کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے“ جس کے نتیجے میں ”ایسے وسائل دستیاب ہو سکتے ہیں جس کی مدد سے سماجی شعبے اور فزیکل و ٹیکنیکل انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کے فوری منصوبے شروع کئے جا سکتے ہیں اور یوں صنعتکاری کا عمل تیز کیا جا سکتا ہے“۔
بظاہر یہ اعلانات مسحور کن ہیں مگر ان اعلانات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ او جی ڈی سی اور پی پی ایل کے حصص کی فروخت کا مطلب ہے کہ سرکاری اداروں بارے یہ حکومتی دعویٰ غلط ہے کہ یہ ادارے خسارے میں جا رہے ہیں اور ٹیکس دہندگان پر بوجھ ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل سالہا سال سے مسلسل اربوں روپے کا منافع کما رہے ہیں اور قومی خزانہ بھرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے حصص بیچنے کا مطلب ہے کہ انڈ ادینے والی مرغی ہی ذبح کر دی جائے کیونکہ انہیں بیچنے کا مطلب ہے حکومتی خزانہ بھرنے کے ذرائع کا گلا گھونٹ دیا جائے۔
ان کمپنیوں کی سالانہ رپورٹ پر نظر دوڑائیں۔ صورت حال خود بخود واضح ہو جاتی ہے۔ 2018-19ء میں او جی ڈی سی ایل نے 176 ارب روپے کا منافع کمایا۔ اس سے پہلے کے چھ سالوں میں اس کا مجموعی منافع 758 ارب تھا۔ او جی ڈی سی ایل نے 124 ارب ٹیکس اور رائلٹی وغیرہ کی مد میں حکومتی خزانے میں جمع کرایا۔ مزید یہ کہ حکومت چونکہ اس کی دو تہائی ملکیت رکھتی ہے۔ اس وجہ سے حکومت کو 35 ارب کا اضافی ڈویڈنڈ (Dividend) ملا۔
اسی طرح پی پی ایل نے حکومت کو 92 ارب ٹیکس اور ڈویڈنڈ کی مد میں مہیا کیا۔ پچھلے سال کے بجٹ میں دونوں کمپنیوں سے حکومت کو 251 ارب حاصل ہوئے۔ یہ بہت بڑی رقم ہے۔
یہ 2016ء کے وفاقی ترقیاتی بجٹ سے دو گنا زیادہ ہے۔ اتنی بڑی رقم کا مطلب ہے کہ غیر ملکی قرضوں کا 5/4 اس سے ادا ہو سکتا تھا۔ اس کے باوجود حکومت نے ان اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی نجکاری بھی ایک ایسے وقت پر کی جا رہی ہے جب انرجی مارکیٹ ایک تاریخی بحران کا شکار ہے۔ اس کا مطلب ہے شرطیہ گھاٹے کا سودا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ منطق اور عوامی مفاد حکومت کے ہاں کوئی معنی نہیں رکھتے۔
حکومت نے قسم کھا رکھی ہے کہ سرکاری اداروں کی نجکاری ہی کرنی ہے۔ ادھر، حکومت نجکاری کرنے کے لئے جو دلیل دے رہی ہے، وہ کسی کو قائل نہیں کر پا رہی مثلاً پرائیویٹائزیشن کمیشن کی ویب سائٹ پر لکھا ہے: ”نجی شعبے کی تکنیکی کارکردگی (ٹیکنیکل ایفے شینسی) ایلوکیٹو ایفے شینسی (Allocative Efficiency) کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ نجکاری کے نتیجے میں ہر شعبے کے اندر اضافی کارگردگی بڑھ جائے گی کیونکہ ایک متبادل دستیاب ہو گا، قیمتیں کم رہیں گی، جدید تکنیک آ سکے گی اور خدمات بہتر ہوں گی“۔
او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے حصص بیچ کر 50 ارب حاصل کئے جائیں گے۔ وزارت خزانہ کا خسارہ اتنا بڑا ہے کہ یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہو گی۔ مزید یہ کہ یہ 50 ارب ایک مرتبہ آئیں گے جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات کی وجہ سے ہونے والے مسلسل خسارے کا یہ نجکاری کوئی دانش مندانہ حل نہیں ہے۔
ضرورت تو غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے کی ہے۔ مزید یہ کہ حصص بیچنے کا مطلب ہے کہ حکومت مستقبل میں ہونے والی آمدن سے دستبردار ہو رہی ہے۔ حصص بیچنے کا مطلب ہے کہ اگلے دس سال میں 50 ارب روپے کی آمدن کم ہو گی۔
کیا حکومت نے مستقبل میں ہونے والے نقصانات کاتخمینہ لگایا؟ نہیں معلوم۔ ہاں یہ بات البتہ ہمیں معلوم ہے کہ جب حکومت مفاد عامہ کے خلاف کوئی قدم اٹھاتی ہے تو کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہوتی ہے۔ او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے حصص بیچنے کا مطلب ہے کہ سرکاری اداروں سے ہونے والا منافع نجی کمپنیوں کے ساتھ بانٹ لیا جائے۔ اسی کا نام کرونی کیپٹلزم ہے۔
بہ الفاظ دیگر حکومت قیمتی قومی اثاثے نجی کمپنیوں کے حوالے کر رہی ہے۔ یہ کمپنیاں اگلے دس سال میں اپنی سرمایہ کاری سے کہیں زیادہ کما لیں گی۔ حکومت کو جس مالی خسارے کا سامنا ہے اس کے پیش نظر اس کی بد حواسی سمجھ میں آتی ہے۔ ہم یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ حکومت آسان حل کی تلاش میں ہے۔ حکومت جلد بازی کا بھی شکار ہے۔ شائد یہی عوامل ترقیاتی منصوبوں اور مالی ترجیحات کا تعین کر رہے ہیں مگر یاد رہے سرکاری اداروں کی نجکاری نہ صرف مالی نالائقی کی نشان دہی کرتی ہے بلکہ ماضی کی غلطی دہرانے کے مترادف ہے۔
اگر آپ ماضی کی نجکاری کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ یہ سارا سلسلہ بدعنوانی کی ایک داستان تھا۔ یہ داستان سن کر شائد آپ سوچیں کہ حکومت نجکاری سے باز آ جائے گی۔ افسوس ایسا نہیں ہے۔ نجکاری حکومت کی ر ائٹ ونگ پالیسی ایجنڈے کا ایک ستون ہے۔ اس کے باوجود کہ فری مارکیٹ کا فلسفہ ناکامی کا شکار ہو رہا ہے، یہ حکومت نجکاری کی مدد سے امیر دوست اور فری مارکیٹ ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔
2008ء کے عالمی معاشی بحران کی طرح کرونا وبا نے بھی فری مارکیٹ کے فلسفے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ چین میں ریاستی کنٹرول میں ہونے والی معاشی نمو نے فری مارکیٹ کے فلسفے کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ چین کی 150 بڑی کمپنیوں میں حکومت حصہ دار ہے۔ دنیا کے چار سب سے بڑے بینکوں میں سے دو چین کی ریاستی ملکیت میں چلنے والی کارپوریشنز ہیں۔ دنیا بھر میں تیل کی 13 بڑی کمپنیاں، جن کے پاس دو تہائی ریزرو ہیں، ریاستی ملکیت میں چل رہی ہیں۔
ہر ملک اپنی حکومت پر انحصار کرتا ہے کہ وہ معاشی نمو کو جنم دے اور یوں قومی چیمپئین پیدا ہوتے ہیں۔ اس سارے عمل میں فری مارکیٹ نہیں بلکہ مرکزی منصوبہ بندی اور ریاستی سرپرستی اہم ترین ستون ہیں۔ یہی دنیا کا مستقبل ہے۔
او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کی نجکاری نہ مستقبل کے لئے اچھی ہے نہ ہی ملک اس سے کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ افسوس شہریوں کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔