کوئٹہ (نامہ نگار) کوئٹہ کے ایوب سٹیڈیم میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا ہونے والا جلسہ شائد شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ جلسہ گوجرانولہ اور کراچی کے جلسوں سے یکسر مختلف تھا۔ جلسے میں شریک قیادت کو کارکنوں کے جذبات سے ایک تفاوت تھا۔
مقررین کے لئے بڑا مشکل تھا کہ وہ حاضرین کی مانگوں کے مطابق تقاریر کریں۔ اس کا اندازہ ایوب سٹیڈیم کے اندر موجود کارکنوں کی تالیوں کی گونج سے لگایا جا سکتا تھا۔
جب حکومت کے خلاف کوئی بات ہوتی تو کارکنوں کی دلچسپی اتنی نہیں تھی۔ جب لاپتہ افراد اوربلوجستان کے دیگر اہم مسائل پر بات ہوتی توسٹیڈیم تالیوں کی گونج سے لرز اٹھتا۔ یہی وجہ تھی کہ ہر مقرر اس بات پر مجبور ہوا کہ اپنی تقریر میں بلوچستان کا بھی ذکر کرے۔
لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنے لاپتہ پیاروں کے حوالے سے پلے کارڈز اٹھا کر جلسے میں شرکت کی۔ لاپتہ افراد کے خاندانوں میں عورتوں کی کثیر تعداد تھی۔ انہوں نے جلسہ گاہ کا رنگ تبدیل کر دیا۔ ان کی موجودگی نے ہر پارٹی کے رہنما کو مجبور کیا کہ مہنگائی، غربت اور سول مارشل لا کے علاوہ بلوچستان اور لاپتہ افراد کی بات بھی کرے۔ لاپتہ افراد کی ماؤں اور بہنوں کی آہ و پکار اور آنسوؤں نے مریم نواز کو بھی اس پر مجبور کیا کہ وہ کھل کراس مسئلے پر بولیں۔
لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی وجہ سے جلسہ گاہ ایک قسم کی ماتم گاہ تھی۔ یہ جھلک گوجرانولہ اور کراچی میں نظر نہیں آئی۔ بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ ہی امن و امان ہے۔ اس وجہ سے یہاں ہر مقرر کو اپنی تقریر دیگر جلسوں کے برعکس کرنی پڑی۔
زیادہ تر جو باتیں گوجرانولہ اور کراچی میں ہوئی تھیں وہ باتیں کوئٹہ جلسے میں نہیں ہوئیں اور جو کوئٹہ میں ہوئیں وہ گوجرانولہ اور کراچی میں نہیں ہوئی تھیں۔ یہ بنیادی فرق اب پی ڈی ایم کیلئے ایک چیلنج بھی ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ مزید آگے بڑھنا اور ڈٹے رہنا چاہیں گے کہ پیچھے ہٹیں گے۔
کوئٹہ جلسے میں شرکا کی تعداد قابل اطمینان تھی لیکن اس میں جمعیت علمائے اسلام کے کارکن زیادہ تھے۔ جلسہ میں شرکت کرنے والوں کے لئے راستے میں بہت رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔ ایم این اے محسن داوڑ کو جلسے میں شرکت کرنے سے روک دیا گیا۔ انٹرنیٹ بند کر دیا گیا۔ موبائل فون سروسز بند کر دی گئیں مگر پھر بھی تمام رکاوٹوں کے باوجود جلسہ کامیاب ہوا۔
اس جلسے میں ایک چیز یہ بھی مختلف تھی کہ ہر وقت مختلف قومی و مذہبی تعصبات کے شکار لوگ ایک ساتھ جلسہ کر رہے تھے۔ اس سے حکمرانوں کا پھیلایا ہوا مصنوعی تعصب بھی دم توڑ گیا۔