لاہور (جدوجہد رپورٹ) حقوق خلق موومنٹ کے زیر اہتمام کل بروز اتوار 8 نومبر کو لاہور میں عوامی حقوق کی بازیابی کیلئے ”عوامی یکجہتی مارچ“ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ یہ مارچ اتوار کے روز دن دو بجے جی پی او چوک لاہور سے شروع ہو گا اور چیئرنگ کراس تک جائیگا۔ مارچ کے انعقاد کیلئے رابطہ مہم عروج پر ہے۔
عوامی یکجہتی مارچ کے منتظمین نے پینتیس رکنی چارٹر آف ڈیمانڈ بھی جاری کر دیا ہے۔ طلبہ، مزدور، کسا ن سمیت تمام تر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل مطالبات میں صحت کے شعبہ، مزدوروں، اعلیٰ تعلیم، سول سوسائٹی اور اساتذہ کے مطالبات شامل ہیں۔
چارٹر آف ڈیمانڈ میں صحت کے شعبہ سے متعلق مطالبات
تمام سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کو فوری طور پر روکا جائے اور تمام شہریوں کیلئے مفتی طبی خدمات کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ ایم ٹی آئی ایکٹ کا فوری طور پر خاتمہ کیا جائے اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو بحال کیا جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے تمام ڈاکٹرز کیلئے انکی رائے کے مطابق سروس سٹرکچر کا اعلان کیا جائے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے لئے باقی اداروں کے ملازمین کی طرح سروس سٹرکچر اور دیگر الاؤنس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
مزدوروں کے مطالبات
تمام سرکاری و غیر سرکاری فیکٹریوں اور کارخانوں میں لیبر قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ مزدوروں کو بلاخوف و خطر تمام فیکٹریوں، کارخانوں میں کام کرنے کی جگہوں پر یونین سازی کی اجازت دی جائے۔ تمام سرکاری ملازمین کی پنشن، سوشل سکیورٹی، سروس سٹرکچر اور دیگر الاؤنس کو فوری بحال کیا جائے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔ حکومت فوری طور پر 35000 روپے کم سے کم اجرت کا اعلان کرے۔ پانی، بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کو فوری طور پر روکا جائے۔ رہائشی کرایوں میں فوری طور پر کمی کی جائے۔ میڈیا کمپنی مالکان اور کارخانوں کے مالکان کی طرف سے کارکنوں کے خلاف درج ایف آئی آرز کو خارج کیا جائے۔ تمام مزدوروں کو رہائشی الاؤنسز مہیا کئے جائیں اور معاشرتی شعبوں میں بجٹ میں کٹوتیوں کو فوری طورپر روکا جائے۔ ابراہیم فائبرز کے کارکنوں کی ملازمتوں کو فوری طور پر بحال کیا جائے اور ان کے خلاف درج مقدمات کو خارج کیا جائے۔ ہر فیکٹری اور کارخانے میں لیبر انسپکشن کا سلسلہ فوری شروع کیا جائے۔
اعلیٰ تعلیم سے متعلق مطالبات
طلبہ یونین کو فی الفور بحال کیا جائے۔ تعلیم چونکہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے لہٰذا تمام طلبہ کو مفت تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ کیمپس میں معمور بے جا سکیورٹی کو ختم کیا جائے۔ اساتذہ اور طلبہ کو کیمپس میں فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جائے۔ پشتون، بلوچ طلبہ سمیت تمام طلبہ کے تعلیمی وظائف کو فوراً بحال کیا جائے۔ پاکستان میں موجود تمام طلبہ کو انٹرنیٹ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
خواتین سے متعلق مطالبات
خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد اور ہراسانی کے واقعات کی فوری روک تھام کی جائے۔ عورت مخالف اور صنفی امتیاز پر بنے فرسودہ قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔ خواتین مزدوروں کو بھی مردوں کے برابر تنخواہ اور دیگر سہولیات مہیا کی جائیں۔ تمام کام کرنے کی نجی و سرکاری جگہوں اور تعلیمی اداروں میں خواتین کی شمولیت سے جنسی ہراسانی کی روک تھام کیلئے فوراً موثر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ موٹر وے ریپ کیس میں نازیبا اور عورت مخالف سوچ رکھنے والے سی سی پی او لاہور کو فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے۔ گھریلو تشدد کی روک تھام کیلئے خواتین کی رائے سے موجودہ اور نئے بننے والے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
سول سوسائٹی سے متعلق مطالبات
نسلی، لسانی، مذہبی اور قومی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک ختم کیا جائے۔ بابا جان اور گلگت بلتستان کے دیگر سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کیا جائے۔ ٹرانسجینڈر برادری کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلقہ قوانین کو فوراً نافذ کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ وفاقی حکومت سندھ، بلوچستان، کے پی کے، گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے صوبائی وسائل پر ڈاکہ ڈالنا بند کرے۔
اساتذہ کے مطالبات
تمام اساتذہ کو باقی سرکاری ملازمین کی طرح فعال سروس سٹرکچر کا حصہ بنایا جائے۔ اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ پنشن اور دیگر الاؤنس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔