جاوید ملک
گلوبل میڈیا اس قدر طاقتور میڈیم ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں موجود شخص سے آپ کی ملاقات کروا سکتا ہے اور آپ کو آپ کے خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان سے دور کر سکتا ہے۔
گزشتہ دنوں نئی آنیوالی تحقیقات نے ماہرین کو حیران کرکے رکھ دیا ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے روزانہ لاکھوں افراد مختلف ذہنی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں اور ان میں سے اکثر لاعلاج بیماریوں کی وجہ سے بہت سے لوگ اس میڈیم کے باعث وقت سے پہلے قبروں میں اتر رہے ہیں۔
نئی ہونیوالی تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ ہماری اور آپ کی ہتھیلیوں پر اور انگوٹھے کے نیچے معلومات کا ایک طوفان برپا ہے۔ اکثر اوقات یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ کہاں کلک کرنا ہے اور کہاں نہیں کرنا کیوں کہ آپ کا ایک ٹچ آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے، جہاں آپ چند لمحے گزار کر، جب واپس اپنی دنیا میں آتے ہیں تو یہ بھید کھلتا ہے کہ یہاں تو کئی گھنٹے بیت چکے ہیں۔
اس زمانے میں سوشل میڈیا ایک ایسی لت بن چکا ہے جس میں بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سب گرفتار ہیں۔ ماہرین کے نزدیک لت کی تعریف یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا عمل جس کو کرنے سے آپ کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آپ یہ بات جاننے کے باوجود اس عادت کو ترک کرنے سے قاصر ہوں۔
دنیا کے مایہ ناز ماہرین میں سے ایک ڈاکٹر گیبر میٹ کی ریسرچ کے مطابق ہر لت کسی نہ کسی ذہنی دھچکے سے متعلق ہوتی ہے۔ زندگی میں ملنے والی کوئی بھی ناکامی انسان کو کسی نہ کسی لت میں مبتلا کرتی جاتی ہے۔ جب کسی کو کوئی جذباتی دھچکا پہنچتا ہے تو وہ اپنے جیسے کسی دوسرے انسان کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ معاشرتی حیوان ہونے کے ناطے انسان کی جبلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں سے رابطہ قائم کرے ۔ سماجی رابطے کے برقی صفحات سے مسلسل رابطہ جوڑے رکھنے اور ان برقی صفحات کے بغیر رہ نہ پانے کو لت کا نام دیا جاتا ہے۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سماجی رابطے کے برقی صفحات کا استعمال کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد کے لیے ان برقی صفحات کا استعمال ایک نشہ بن چکا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق جب کوئی شخص سوشل نیٹ ورکنگ کر رہا ہوتا ہے تو اس دوران اس کے دماغ کا ایک مخصوص حصہ ’Nucleus Accumbens‘ متحرک ہو جاتا ہے۔ یہ دماغ کا وہ حصہ ہے جو کہ کوئی نشہ (جیسا کہ کوکین وغیرہ کا استعمال) کرتے ہوئے متحرک ہوتا ہے لہٰذا سوشل میڈیا بھی ایک ایسا نشہ ہے، جو کہ اپنے صارفین کو اس طرح سے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ صارفین اس ذریعہ کو استعمال کرنے کے بجائے خود استعمال ہو جاتا ہے (ایسے طریقہ تحقیق پر بہت سے تحفظات بھی پائے جاتے ہیں، بہر حال یہ بحث پھر کبھی سہی)۔
یہ لت ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو کھا جاتی ہے اور ہمیں خیالی دنیا کا مسافر بنا دیتی ہے۔ اس برقی دور میں جہاں ہر چیز برق رفتاری سے اسکرین کا حصہ بنتی جا رہی ہے، وہیں جذبات، احساسات اور خیالات بھی برقی صفحات کا حصہ بن چکے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایموجیز کی مدد سے اپنے احساسات کا اظہار کرنے والی نسل کی زبانوں سے اصل الفاظ کی چاشنی گم ہو چکی ہو۔ کوئی مر رہا ہے تو ویڈیو، کوئی مار رہا ہے تو ویڈیو، آپ نے کیا کھایا، کیا خریدا، کیا پہنا، کہاں گھومنے گئے، کس سے ملے، کس کے ساتھ وقت گزارا۔ ہر لمحہ سیلفی کی فکر میں جیتے لوگ اتنی زندگی جی نہیں رہے، جتنی زندگی کیمرے میں قید کر رہے ہیں۔
کتنے لائیکس، کتنے کمنٹس، کتنے شیئرز کی گنتی میں الجھ کر اپنی اصل قیمت کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ خود پسندی اور ریاکاری کا شکار انسان پانچ ہزار دوستوں کی لسٹ میں بھی تنہائی کا شکار رہتا ہے۔ ایک حالیہ مطالعے کے مطابق بار بار اپنی سیلفی لینا ایک ذہنی خلل ہے، جسے سیلفیٹس (Selfitis) کہا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی شخص اگر ایک دن میں چھ سے زیادہ مرتبہ اپنی سیلفی لیتا ہے اور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ذہنی خلل بہت زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر 10 میں سے تین تصاویر سیلفی ہوتی ہیں۔ انسٹاگرام پر ہر دس سیکنڈ میں ایک ہزار سیلفیاں پوسٹ کی جاتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ دنیا بھر میں 93 ملین سیلفیاں لی جاتی ہیں۔ اگر ہم اسے فلم رول پر لیں تو روزانہ 2.5 ملین رول درکار ہوں گے۔
سیلفی لینے کا خبط بذات خود ایک سینڈروم بن چکا ہے۔ اس سینڈروم کا شکار لوگ اپنی ہزاروں تصاویر لیتے ہیں، پھر اس میں سے کسی ایک بہترین تصویر کا انتخاب کر کے اس کو ایڈیٹ کرنے کے بعد پوسٹ کیا جاتا ہے۔ اس سینڈروم کا شکار لوگ اپنے تفریحی دورے، دوستوں کی بیٹھک، کار کی نمائش، ڈک فیس اور خاص طور پر مہم جوئی کرتے ہوئے اپنی تصاویر لینے کی کوشش کرتے ہیں جوکہ بسا اوقات انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
آئے دن ایسے حادثات کی خبریں ہماری نظروں سے گزرتی رہتی ہیں کہ سیلفی لینے کی کوشش میں کوئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، کوئی ندی میں جا گرا تو کوئی ٹرین کی زد میں آ گیا۔ کچھ جانباز تو خود اپنی جان کے در پے ہو کر خودکشی کی کوشش تک کر گزرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک کیس ڈینی بومین نامی ایک لڑکے کا تھا، جس نے 16 سال کی عمر میں خودکشی کی کوشش کی۔ ڈینی بتاتے ہیں کہ وہ دس دس گھنٹے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی تصویریں اتارتے رہتے تھے اس میں خرابیاں تلاش کرتے اور انہیں ہر بار کوئی نہ کوئی خرابی مل جاتی۔ اس ناکامی نے ان کو اس قدر دل برداشتہ کیا کہ انہوں نے اپنی جان لینے کی بھی کوشش کی۔
اس سارے منظرنامے میں جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ سماجی رابطے کے برقی صفحات پر جو جیسا نظر آرہا ہے، وہ اصل سے بہت الگ ہے۔ کچھ لوگوں کو آپ سماجی رابطے کے برقی صفحات پر دیکھ کر یا پڑھ کر ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کر لیتے ہیں اور جب حقیقی زندگی میں ان سے ملاقات کا موقع ملے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے اندازے درست نہیں تھے۔ جس شخص کو آپ بہت مثبت سمجھتے تھے وہ ایک منفی سوچ کا حامل شخص نکل سکتا ہے۔ یا کسی شخص کے بارے میں آپ کے منفی جذبات یا تاثرات تھے لیکن حقیقی زندگی میں وہ ایک نفیس شخص ہوتا ہے۔
ہماری نوجوان نسل خاص طور پر احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے اور وہ اپنی اصل زندگی سے ہٹ کر اپنی شخصیت کا ایسا تاثر دینا چاہتے ہیں جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان کی شاندار اور خوشحال زندگی کی تصاویر دیکھ کر دوسرے لوگوں میں بے چینی بڑھ جاتی ہے کہ ہم ایسی زندگی نہیں گزار سکتے ۔
سوشل میڈیا پر انتہائی خوش اور مطمئن نظر آنے والے لوگ حقیقت میں اندر سے انتہائی ناخوش اور تنہائی کا شکار اپنی خیالی دنیا میں جی رہے ہوتے ہیں۔ یہ بات سوچنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ جب یہ سب ختم ہو گا تو پھر کیا ہو گا، حقیقت تو وہی رہے گی کیوں کہ انہوں نے حقیقت کو بدلنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہوتا۔ گیمز کے سیزن مکمل کر کے کامیابی کے نشے میں سرشار ہونا زندگی نہیں ہے۔
اصل زندگی کے ہدف پورے کرکے اپنوں کے درمیان ہنستے ہوئے جینے کا نام زندگی ہے۔ سوشل میڈیا کے بے پناہ فوائد سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا لیکن اپنا جائزہ لینا بھی انتہائی ضروری ہے کہ آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے عامل رہتے ہیں یا معمول بن جاتے ہیں۔
ماہرین کی رائے کے مطابق آپ اپنے آپ سے چند سوالات کر کے یہ جان سکتے ہیں کہ آیا آپ اس لت کا شکار ہو چکے یا آپ کی وابستگی بامقصد اور صحت مند رجحان کی حامل ہے۔ پہلا سوال اپنے آپ سے پوچھیں کہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے آپ کا بنیادی مقصد کیا ہوتا ہے؟ دوسرا سوال یہ پوچھیں کہ کیا آپ اس ٹیکنالوجی کا شکار ہیں اور کیا آپ اس کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں؟ اور پھر یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ اگر آپ اس کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں تو آپ کو اس کے استعمال کی کیا ضرورت ہے؟ ان سوالات کا جواب اپنے آپ سے معلوم کرنے کی کوشش کریں، ہم اس میڈیا کے ہاتھوں استعمال ہو کر اپنے مسائل میں کیوں اضافہ کر رہے ہیں؟