خبریں/تبصرے

سرمایہ دارانہ سیاست میں جھوٹے سیاستدان زیادہ کامیاب: نئی تحقیق

جاوید ملک

ایک نئی تحقیق میں یہ حیران کن اور دلچسپ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سچ بولنے والے سیاستدانوں کی نسبت شاطر اور جھوٹ بولنے والے سیاستدان زیادہ کامیابیاں حاصل کرتے ہیں اور ان کے لیے پارٹی یا حکومت میں کسی قسم کا عہدہ حاصل کرنا ایماندار سیاستدانوں کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں جب عوام امیدواروں کے پر اعتماد اور قابل قبول ہونے کو زیادہ اہمیت دیتے ہوں تو ایسے میں انتخابی نظاموں میں شاطر اور جھوٹے امیدواروں کی کامیابی کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔

برطانیہ میں یونیورسٹی آف باتھ اور جرمنی میں یونیورسٹی آف کونسٹنز میں ماہرین معیشت نے سینکڑوں سیاستدانوںپر تجربہ وتجزیہ کیا تو اس تجربے سے ظاہر ہوا ہے کہ سیاست میں ترقی وہ امیدوار کرتے ہیں جو اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے میں سب سے زیادہ وعدہ خلافی کرتے ہیں۔

اس تحقیق میں ماہرین معیشت نے قابل اعتماد ہونے کی اہمیت کو آزمانے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ مختلف انتخابی مواقع پر افراد کا ردعمل کیا ہوتا ہے، گیم تھیوری کے تجربے کا اہتمام کیا۔ ایک انتخابی عمل کے دو مراحل تھے۔ پہلے مرحلے میں وہ انفرادی امیدوار تھے جو پارٹی کی جانب سے بطور امیدوار نامزدگی کے لیے ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ یہ صورت حال امریکہ میں ہونے والے عمل سے ملتی ہے جہاں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن جماعتیں اپنے رہنما¶ں کا انتخاب کرتی ہیں۔

تب ماہرین معیشت نے تجربے میں شامل ان ’امیدواروں‘ سے پوچھا کہ وہ اپنی سلیکشن کے لیے کتنے بے تاب ہیں۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے وہ (100 کے حساب سے) تین پیمانوں یعنی پیسے، وقت اور کوشش پر کتنی سرمایہ کاری کریں گے تا کہ ان سب کو ملا کر وہ سلیکشن کے مرحلے سے گزر جائیں۔ وہ امیدوار جنہوں نے سب سے زیادہ سرمایہ لگایا وہ پہلے مرحلے میں آسانی سے داخل ہو گئے۔ عہدے کا الیکشن لڑنے کے لیے منتخب ہونے کی صورت میں امیدواروں کو اس بات کا بھی انتخاب کرنا تھا کہ وہ انتخابات کے دوران ووٹروں سے کتنی رقم کا وعدہ کریں گے تا کہ ان لوگوں کی حمایت حاصل کر سکیں جنہوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

مثال کے طور پر اس کی عکاسی انتخابی مہم کے دوران ٹیکس اور اخراجات پر وعدوں سے ہو سکتی ہے۔ آخر میں، منتخب ہو جانے کی صورت میں سیاست دانوں کو یہ طے کرنا تھا کہ انتخابی دوڑ سے باہر، حقیقت کی زندگی میں کس طرح فیصلے کریں گے۔ انہیں طے کرنا تھا کہ وہ ووٹروں کو کیا دیں گے؟ کیا وہ اپنا ذہن تبدیل کر لیں گے یا اپنے پہلے کے وعدے پورے نہیں کریں گے۔

محققین کے نتائج نے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ وہ امیدوار جن کا نامزدگی کے عمل میں کامیابی کا امکان سب زیادہ رہا وہ پہلے مرحلے میں سرمایہ کاری کرنے والے لوگ تھے اور پھر انتخاب لڑنے کے بعد انہی لوگوںنے ووٹروں سے سب سے زیادہ وعدہ خلافیاں کیں دوسرے لفظوں میں وہ امیدوار جو نامزدگی میں سب سے دلچسپی رکھتے تھے یہ وہی لوگ تھے جن کی جانب سے وعدہ خلافی کا امکان سب سے زیادہ تھا۔

یونیورسٹی آف باتھ کے شعبہ معاشیات کے سرکردہ محقق ڈاکٹر مائیک شناڈر نے کہا:’ ’ہماری تحقیق سے یہ اجاگر ہوتا ہے کہ انتخابی مہم میں ایسے امیدواروں کا پایا جانا کیوں زیادہ حیران کن نہیں ہو سکتا جو جھوٹ بولتے ہیں۔ سیاست میں اعتماد کی سطح کے پیش نظر ہم سب کو اس پر تشویش ہونی چاہیے۔ الیکٹوریٹ کے حوالے سے یہاں کھلا تضاد پایا جاتا ہے جو یہ کہتا ہے سیاست میں جو چیز ناپید ہے وہ زیادہ اعتماد ہے۔ اس کے باوجود تحقیق کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جو امیدوار زیادہ جھوٹ بولتے ہیں ان کا اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح عہدہ حاصل کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔“

انہوں نے مزید کہا: ”گیم تھیوری کے تناظر میں دیکھا جائے کہ ایسا کیوں ہے تو بات واضح ہے، لیکن ان نتائج سے امیدواروں میں موجود قابل اعتراض باتیں اور سسٹم کی بڑھتی شفافیت پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے“۔

محققین نے زور دیا ہے کہ ایک صورت یہ بھی ہے کہ دیانت دار افراد عہدے پر پہنچنے کے لیے وقت اور وسائل کی شکل میں محنت کرتے ہیں تاہم ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے وہ اس قابل نہیں کہ اتنی تعداد میں کامیاب ہو سکیں جتنی تعداد میں ان کے زیادہ بددیانت حریف کامیاب ہو تے ہیں۔

تحقیق کرنے والی ٹیم کی رائے ہے کہ اعتماد میں بہتری کے لیے حقائق کی کہیں زیادہ بہتر طریقے سے جانچ پڑتال، انتخابی اخراجات کی شفافیت اور مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کی عوامی سطح پر محاسبے سے مدد ملے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بددیانتی کی ترغیب میں کمی لانے کے منصوبوں میں نئے طریقے شامل کیے جا سکتے ہیں تا کہ انتخابی مہم کے وعدوں پر عمل کو لازمی بنایا جا سکے۔

بائیں بازو کے تحقیقاتی جریدے ایشین مارکسسٹ ریویو کا اس سلسلہ میں کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں انتخابی عمل کو تعمیری عمل بنانے کی بجائے تجارتی عمل بنا لیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سیاست خدمت کی بجائے تجارت بن کر رہ گئی ہے۔

Javed Malik
+ posts

جاوید ملک سینئر صحافی اور ترقی پسند سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔