حارث قدیر
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی سرحدوں پر دھرنے پر بیٹھے بھارتی کسانوں کے احتجاج کو ایک مہینہ مکمل ہو گیا ہے۔ شدید سردی، ریاستی سختیوں اور مشکل حالات کا مقابلہ کرتے کسان اپنے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کیلئے پر عزم ہیں۔
بھارتی کسانوں نے 26 نومبر کو دہلی چلو مارچ کا آغاز کیا تھا۔ دہلی میں داخل ہونے سے روکے جانے پر کسانوں نے دہلی کے داخلی راستوں پر کئی مرکزی شاہرات کو روک کر دھرنا دے دیا تھا۔ بھارتی حکومت کے ساتھ کسانوں کی قیادت کے مذاکرات کے کئی دور چل چکے ہیں لیکن حکومت نے تاحال کسان مخالف تین قوانین کو منسوخ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ حکومت نے ایک مرتبہ پھر کسان قیادت کو مذاکرات کیلئے خط لکھ دیا ہے۔
بھارتی حکومت نے ستمبر میں حزب اختلاف کے بائیکاٹ کے باوجود یہ تین متنازعہ قوانین مختصر بحث کے بعد منظور کئے تھے، حکومت کا کہنا ہے کہ قوانین کاشتکاری کو جدید بنائیں گے اور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کریں گے لیکن کسانوں کو خوف ہے کہ ان کا مقصد فصلوں کے ذخیرہ کرنے اور مارکیٹنگ کے ضوابط میں آسانی پیدا کرنا ہے جس سے بڑی کارپوریشنوں کو فائدہ ہوگا اور انہیں آزاد منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔
کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے فصلوں کی خریداری کا ریاستی نظم و نسق ختم ہو جائے گا اور حکومت کی جانب سے انکی پیداوار کیلئے کم سے کم قیمتوں کا تعین کرنے کا نظام بھی ختم ہو جائیگا۔
حکومت نے قوانین میں ترمیم کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے فصلوں کی باقاعدہ خریداری اور کم سے کم سپورٹ پرائس برقرار رکھنے کی پیشکش کی ہے لیکن کسان تینوں قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کسان رہنما درشن پال کا کہنا ہے کہ ”ہمیں حکومت کی یقین دہانیوں پر یقین نہیں ہے، ہم ٹھوس تجاویز چاہتے ہیں، بے مقصد ترمیم نہیں۔ یہ قوانین کسانوں کیلئے موت کا وارنٹ ہیں۔“
کسان رہنماؤں نے حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ احتجاج کرنے والے کسانوں کو ملک دشمن قرار دے کر انہیں کمزور اور بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
کسانوں نے ایک خط میں حکومت کو لکھا ہے کہ ”آپ احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ اس طرح سلوک کر رہے ہیں جیسے وہ مسائل زدہ شہری نہیں بلکہ سیاسی حریف ہیں۔ اگر حکومت ایسا سلوک کرتی رہی تو کسان اپنی بقا کیلئے اپنا احتجاج مزید تیز کرنے پر مجبور ہونگے۔“
یہ کسان نئی دہلی جانے والی مرکزی سڑکوں پر کم سے کم پانچ سرحدی مقامات پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ سڑکوں پر کھانا کھاتے ہیں، ٹریکٹرٹرالیوں میں سوتے ہیں۔ کسانوں کا یہ پڑاؤ دس کلومیٹر سے زائد علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔
سیکڑوں رضا کار، این جی اوز اور مقامی افراد مظاہرین کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔ مقامی افراد نے اپنے گھر کھول رکھے ہیں تاکہ مظاہرین میں شامل خواتین بیت الخلا استعمال کر سکیں۔
مظاہرین کیلئے ایک دودھ والا شخص ہر روز 250 لیٹر دودھ فراہم کر رہا ہے، کسان سبزیاں، اناج لانے کیلئے گاؤں میں مسلسل آنا جانا کر رہے ہیں بالخصوص سکھ برادری کے لوگ دنیا بھر سے احتجاجی مظاہرین کی مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کمبل اور خیمے عطیہ کئے ہیں۔
بھارتی حکومت نے کسانوں کو سیاسی اجتماع قرار دینے کے علاوہ ملک دشمن قرار دینے کیلئے مسلسل پروپیگنڈہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن اس سب کے باوجود کسانوں کے احتجاج کی حمایت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایک مہینے کے دوران ہزاروں کی تعداد میں نئے لوگ احتجاج میں شامل ہوئے ہیں۔ طلبہ، مزدوروں اور دیگر مکاتب فکر کے افراد کی کثیر تعداد کسانوں کے احتجاج کی حمایت میں انکے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
حکومت نے کسان مظاہرین کے دھرنے والے علاقوں میں موبائل فون سگنل جیمرز لگا رکھے ہیں۔ پولیس کی جانب سے متعدد واقعات میں درجنوں کسانوں بشمول خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن تمام تر سختیوں کے باوجود کسانوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی صورت گھر واپس نہیں جائیں گے۔ حکومت جس وقت قوانین منسوخ کرے گی اسی وقت احتجاج ختم ہو گا۔