لاہور (جدوجہد رپورٹ) بلوچ سیاسی رہنما اور سابق سربراہ بی ایس او (آزاد) کریمہ بلوچ کو بلوچستان میں واقع انکے آبائی گاؤں تمپ میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ پیر کے روز انکی آخری رسومات میں صرف خاندان کے قریبی افراد کو شرکت کی اجازت دی گئی۔ لاہور میں بلوچ یکجہتی کمیٹی لاہور کے زیر اہتمام ناصر باغ میں پیر کے روز کریمہ بلوچ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی اور کریمہ بلوچ کے جسد خاکی کو زبردستی کراچی سے بلوچستان بھیجے جانے اورآبائی گاؤں تمپ میں بلوچ رہنماؤں کو آخری رسومات میں شرکت کی اجازت نہ دیئے جانے کی مذمت کی گئی۔
کریمہ بلوچ گزشتہ ماہ کینیڈا میں جلاوطنی کے دوران 37 سال کی عمر میں پراسرار طور پر فوت ہو گئی تھیں۔ اتوار کے روز انکا جسد خاکی پاکستان پہنچا، جہاں کراچی ایئرپورٹ پر جسد خاکی ورثا کے حوالے کرنے میں چار گھنٹے کی غیر معمولی تاخیر کا مظاہرہ کیا گیا۔
کریمہ بلوچ کے حامیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی فوج نے گاؤں کو سیل کر دیا تھا اور انہیں کریمہ بلوچ کی تدفین میں جانے سے روک دیا گیا۔
سابق قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی و پی ٹی ایم رہنما محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ ”کریمہ بلوچ کی میت کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا گیا یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ہے۔“ بلوچ رہنماؤں کی طرح محسن داوڑ نے بھی پاکستانی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
محسن داوڑ نے ٹویٹ کیا کہ ”یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اس سے تفریق اور علیحدگی کی تحریک کو مزید تقویت ملے گی۔ کیا یہ بلوچوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی حکمت عملی ہے؟“
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پیر کے روز بلوچستان بھر میں مکمل ہڑتال کی اپیل کر رکھی تھی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق ریاست نے کینیڈا سے آمد کے بعد بلوچ رہنماؤں کو کریمہ بلوچ کا جسد خاکی حوالے کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ کیا اور کراچی میں نماز جنازہ کی ادائیگی کو بھی ناکام بنایا گیا۔ سیکڑوں بلوچ کارکنوں نے کراچی میں احتجاجی ریلی بھی نکالی اور حکومت کی جانب سے کریمہ بلوچ کی آخری رسومات کی اجازت نہ دینے پر شدید مذمت کی۔
دوسری طرف بی بی سی نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان کے شہر کیج، گوادر اور دیگر علاقوں سے بلوچ سیاسی رہنما کریمہ بلوچ کے جنازے میں شرکت کیلئے جانے والے افراد کو تربت سے آگے جانے سے روک دیا گیا۔
گوادر سے تعلق رکھنے والے ایک شہری نے فون پر بی بی سی کو بتایا وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو گوادر زیرو پوائنٹ سے ان گاڑیوں میں شامل ہو گئے تھے جو کراچی سے کریمہ بلوچ کی میت کو تمپ لے کر جا رہی تھیں۔
اْن کا مزید کہنا تھا کہ جب اتوار کی شام کو یہ گاڑیاں تربت کے علاقے ڈی بلوچ چوک پہنچیں تو وہاں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی بھاری نفری بھی موجود تھی۔ انھوں نے بتایا کہ وہاں سے صرف ان پانچ چھ گاڑیوں کو تمپ جانے دیا گیا جو کہ میت کے ہمراہ تھیں۔
ان کے مطابق لوگوں کی بہت بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی جو اس قافلے کے ساتھ تربت جانا چاہتی جو کریمہ بلوچ کی میت لے کر تمپ جا رہا تھا لیکن یہاں سے کسی کو بھی تمپ اور مند کی جانب نہیں جانے دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ڈی چوک سے آگے ان لوگوں کو بھی نہیں جانے دیا جا رہا تھا جو کہ اب اپنے اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بہت سی ایسی ویڈیوز بھی زیر گردش ہیں جن میں لوگ اسی نوعیت کی شکایات کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
کچھ ویڈیوز میں لوگ سکیوٹی فورسز کے اہلکاروں سے درخواست بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ انھیں جانے دیا جائے۔
کراچی سے فون پر ماما قدیر بلوچ نے بتایا کہ تمپ اور گردونواح کے علاقے میں موبائل فون نیٹ ورک سروس معطل کر دی گئی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ تمپ اور دیگر علاقوں میں کرفیو جیسی صورتحال ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اتوار کو کراچی میں مولوی عثمان پارک میں کریمہ بلوچ کی میت کو لانے اور وہاں نماز جنازہ کی ادائیگی کا پروگرام تھا لیکن ایئرپورٹ سے ہی ان کی میت کو لیاری نہیں لانے دیا گیا بلکہ کراچی ایئرپورٹ سے ہی بلوچستان کے علاقے حب منتقل کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے خلاف لیاری میں احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر کچھ ایسی تصاویر بھی سامنے آئی ہیں جس میں کریمہ بلوچ کے اغوا اور قتل کے خلاف بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مظاہرے اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی ہے۔
کریمہ کی موت گذشتہ دسمبر کینیڈا میں واقع ہوئی تھی اور ٹورنٹو پولیس نے ان کی ہلاکت کے پیچھے کسی جرم کے امکان کو مسترد کیا تھا۔
تاہم خاندان کے افراد نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
ان کی بہن ماہ گنج بلوچ نے بتایا کہ کریمہ کی میت اتوار کی شب پاکستان پہنچی لیکن حکام نے چار گھنٹے کی تاخیر کے بعد اسے خاندان کے حوالے کیا۔
کریمہ بلوچ بلوچستان کے شہر تربت میں سنہ 2005ء میں اس وقت پہلی بار سامنے آئی تھیں جب انھوں نے ہاتھ میں ایک لاپتہ نوجوان کی تصویر اٹھا رکھی تھی۔ ضلع کیچ کی تحصیل تمپ سے تعلق رکھنے والی کریمہ بلوچ کے والدین غیر سیاسی تھے تاہم ان کے چچا اور ماموں بلوچ مزاحمتی سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔
بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی ماں سمجھی جانے والی طلبہ تنظیم بلوچستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے تین دھڑوں کا جب 2006ء میں انضمام ہوا تو کریمہ بلوچ کو سینٹرل کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا۔ یہ سفر جاری رہا اور سنہ 2008ء میں وہ جونیئر نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئیں جب بی ایس او کے سینئرنائب صدر ذاکر مجید کی گمشدگی ہوئی تو کریمہ نے ان کا یہ عہدہ سنبھالا۔
بی ایس او رہنما زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد کریمہ نے تنظیم کے چیئرپرسن کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالی تھیں اور وہ بی ایس او کی پہلی خاتون چیئرپرسن تھیں۔ تنظیمی طور پر یہ ایک کٹھن دور تھا جب تنظیم کے مرکزی رہنماؤں کی جبری گمشدگی ہو چکی تھی، بعض افراد پوشیدہ ہو گئے تھے اور کچھ نے سرے سے ہی اپنی راہیں علیحدہ کر لی تھیں۔
بلوچستان کی آزادی پر یقین رکھنے والی اس طلبہ تنظیم بی ایس او آزاد پر حکومت پاکستان نے مارچ 2013ء میں پابندی عائد کردی تھی۔ ایسے میں کریمہ بلوچ نے اس تنظیم کو فعال رکھا اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جا کر تنظیمی مواد وہاں پہنچاتی رہیں۔
کریمہ بلوچ کا شمار ان پہلی خواتین طلبہ رہنما کے طور پر کیا جاتا ہے جنھوں نے نئی روایت قائم کی اور تربت سے لے کر کوئٹہ تک سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔
انھوں نے تربت سے بی اے کیا اور بعد میں بلوچستان یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا لیکن اپنی سیاسی سرگرمیوں کے باعث تعلیم جاری رکھ نہیں سکیں، پاکستان میں حالات ناساز گار ہونے کے بعد وہ کینیڈا چلی گئیں جہاں انھوں نے سیاسی پناہ حاصل کی۔
وہ یورپ سمیت جنیوا میں انسانی حقوق کے حوالے سے اجلاسوں میں شرکت کرتی رہیں اور ٹوئٹر اور فیس بک پر اپنے خیالات کا اظہار کرتی تھیں۔