خبریں/تبصرے

سرگودھا کی انوکھی مسجد‘ جہاں شیعہ سنی مل کے عبادت کرتے ہیں

فاروق سلہریا

اَسی کی دہائی میں ’ایکشن‘ کے متلاشی نوجوانوں کے لئے سرگودھا میں رہنا کوئی دلچسپ تجربہ نہیں تھا۔ سرگودھا نہ تو ثقافتی مرکز تھا، نہ یہ سیاست کا گڑھ تھا اور نہ ہی اس شہر سے کوئی بڑے کھلاڑی پیدا ہو رہے تھے۔ سیاحت کا مرکز تو سرگودھا کبھی بھی نہیں رہا۔ گو ادبی حلقے یا فنی سرگرمیاں بالکل مفقود نہیں ہوئی تھیں مگر ان کا حلقہ انتہائی محدود تھا اور یہ سرگرمیاں اتنی دلچسپ بھی نہ تھیں۔ اِکا دُکا مشاعروں کے علاوہ ٹاون ہال میں گاہے بگاہے ایک بورنگ سا ڈرامہ اسٹیج ہوتا تھا اور بس۔

دلچسپ بات ہے کہ شہر کی پبلک لائبریری مرزا غالب کے نام سے منسوب ہے۔غالب لائبریری میں طالب علموں کی بھیڑ لگی رہتی۔ یہ الگ بات ہے کہ جن کتابوں کی مانگ زیادہ ہوتی وہ ڈپٹی کمشنر یا کمشنر صاحب بہادر کے نام پر اِشو ہو چکی ہوتی تھیں اور واپس آنے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں۔ اخبارات کے نام پر چند چیتھڑے بھی شائع ہوتے تھے۔ خوبصورت ناموں والے چھ دیدہ زیب سینما گھر بھی تھے۔ نئی پاکستانی فلمیں البتہ دو سینما گھر ہی دکھاتے تھے۔

خوشحال افراد نئی فلمیں دیکھنے کے لئے لاہور کا رخ کرتے۔ لاہور جا کر فلم دیکھنا ایک طرح سے اسٹیٹس سمبل بھی تھا۔ فلمی دنیا میں بھی سرگودھا سے کوئی بڑا نام پیدا نہ ہوا۔ پاکستان ٹیلی وژن پر البتہ کبھی کبھار نمودار ہونے والے انعام خان اور نیوز کاسٹر مہ پارہ صفدر مقامی لحاظ سے کامیابی کی دو داستانیں سمجھی جاتی تھیں۔

سرگودھا کا واحد کرکٹ سٹیڈیم بھی کبھی ٹیسٹ گراونڈ کا درجہ حاصل نہ کر سکا۔ اَسی کی دہائی میں ایک دفعہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم تین روزہ میچ کھیلنے آئی تو گویا ایک سنسنی سی مچ گئی۔

ہاں کرکٹ ایک مقبول ضرور کھیل تھا۔ طارق وفائی، غلام عباس، عرفان جیسے ہونہار کرکٹر شہر میں کرکٹ کلچر کی مقبولیت کا ثبوت تھے مگر ان میں سے کوئی بھی قومی ٹیم میں جگہ نہ بنا سکا۔ ہاکی بھی ایک مقبول کھیل تھا۔ ٹیلنٹ کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔نجم (جو اب پاک فضائیہ میں ونگ کمانڈر ہیں)، ظہیر (جو اب برگیڈئیر ہیں) اور عمران کے ہاتھ میں ہاکی جادو کی چھڑی بن کر گھومتی تھی۔ اس کے باوجود سرگودھا کا پڑوس میں واقع گوجرہ سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ صرف فُل بیک زاہد ہی قومی ٹیم تک پہنچ سکے۔ 1984ء میں جس ٹیم نے اولمپک گولڈ میڈل جیتا وہ اس اسکواڈ کا حصہ تھے۔ سنٹر ہاف شفقت بھی ایک ہیرو تھے۔ 1994ء میں جس ٹیم نے ہاکی کا ورلڈ کپ جیتا‘ شفقت اس کا حصہ تھے۔ فیاض بھی اَسی کی دہائی کے ایک اہم سپورٹس ہیرو تھے۔ بطور اتھلیٹ انہوں نے اولمپکس کے علاوہ کئی عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

یہ سب لوگ مقامی نہیں قومی ہیرو تھے مگر ان میں سے کوئی بھی ملکی یا عالمی سطح پر سٹار اسٹیٹس نہ حاصل کر سکا۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی شہر میں مفقود تھے۔ اگر کبھی پی ٹی وی پر سرگودھا کا نام آتا تو موسم ِگرما میں‘ جب سرگودھا میں درجہ حرارت سبی اور جیکب آباد سے اوپر جانے کی وجہ سے موسم کی خبروں میں شہر کاذکر کیا جاتا۔

پچھلے تیس سالوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ بہتری بھی آئی ہے۔ کرکٹ سٹار عبدالحفیظ کا تعلق سرگودھا سے ہے۔ اہلیانِ سرگودھا کو ان پر بہت فخر ہے۔سرگودھا یونیورسٹی اور سرگودھا میڈیکل کالج نے نہ صرف شہر کا حلیہ بلکہ کلچر بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ہاکی کا کلچر تو اب دم توڑ رہا ہے مگر استاد بشیر کا پنجاب ہاکی کلب اب بھی متحرک ہے۔

جس چیز پر البتہ سرگودھا کے رہائشی کے طور پر مجھے فخر ہے وہ ہے ایک چھوٹی سی مسجد جو ہمارے گھر کے سامنے واقع ہے۔ جب محرم کے مہینے میں میڈیا پر فرقہ وارانہ کشیدگی کی خبریں آنے لگتی ہیں تو میں اپنے محلے کی مسجد بارے سوچنے لگتا ہوں جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک لاجواب مثال ہے۔

2003ء میں بنائی گئی یہ مسجد شیعہ سنیوں کی مشترکہ مسجد ہے۔ ہمارا محلہ منصور آباد اَسی کی دہائی میں ایک ورکنگ کلاس علاقہ تھا جو اب ایک مڈل کلاس آبادی میں بدل گیا ہے۔ آبادی بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ بہت کچھ بدل گیا۔ اگر کچھ نہیں بدلا تو محلے کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ۔

جب اِس مسجد کی بنیاد رکھی گئی تو محلے میں تھوڑی لے دے ہوئی۔ شیعہ چاہتے تھے کہ امام بارگاہ بننی چاہئے۔ سنی چاہتے تھے کہ ایک سنی مسجد بنائی جائے۔ دونوں فرقوں کے بزرگوں نے اس مسئلے کا حل خوش اسلوبی سے نکال لیا۔ پاک فضائیہ کے دو سابق کولیگز نے بالخصوص قابلِ ستائش کردار ادا کیا۔ مسجد تعمیر ہو گئی تو کچھ قاعدے قانون وضح کیے گئے۔ اب سولہ سال ہو گئے ہیں اور دونوں فرقے ان اصولوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔

مسجد کا مشترکہ استعمال مندرجہ ذیل خطوط پر استوار ہے: لاؤڈ اسپیکر میں نہ سنی اذان دیتے ہیں نہ شیعہ۔ سچ تو یہ ہے کہ مسجد میں کوئی لاؤڈ اسپیکر ہی نہیں ہے۔ لاوڈ اسپیکر کے بغیر مسجد کا چلنا بذاتِ خود ایک عجوبہ ہے۔مسجد میں دو امام ہیں۔ ایک شیعہ مکتب فکر سے دوسرا سنی۔ دونوں حافظ قرآن ہیں اور دوستوں کی طرح رہتے ہیں۔ محلے کے لوگ دونوں کا ایک جیسا خیال رکھتے ہیں۔یہ بات بھی طے ہے کہ اِس مسجد میں نمازِ جمعہ کوئی فرقہ بھی نہیں پڑھائے گا۔ عید کی نماز البتہ دونوں گروہ یہاں ادا کرتے ہیں۔شیعہ حضرات مسجد میں محرم کی کوئی تقریب نہیں کرتے۔ اسی طرح سنی کوئی ایسی تقریب نہیں کرتے جو سنیوں سے مخصوص ہو۔

اس چھوٹی سی مسجد کی شکل میں پاکستان کے لئے بہت بڑے اسباق پوشیدہ ہیں۔ نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ کشیدگی پر عام لوگوں کو متحرک کر کے قابو پایا جا سکتا ہے۔ یکجہتی تفرقہ بازی کا تریاق ہے۔


پہلی بار یہ مضمون انگریزی زبان میں دسمبر 2012ء میں ’دی نیوز‘ کے ادارتی صفحات پر شائع ہوا۔ اردو ترجمہ معمولی رد و بدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔


 

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔