فاروق طارق
ڈاکٹر نوشیروان برکی عمران خان کے کزن ہیں جنہیں تحریک انصاف کی پچھلی صوبائی حکومت میں بیک وقت پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین لگا دیا گیا تھا۔ وہ آج کل صوبہ خیبر پختونخواہ میں ’ہیلتھ ریفارمز‘ نافذ کرنے کے لئے بنائی گئی ٹاسک فورس کے سربراہ اور صوبائی مشیر صحت بھی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں انہوں نے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ضیاالدین آفریدی کو ملاقات کا وقت دینے سے انکار کیا تھا۔ ڈاکٹر ضیاالدین آفریدی کا موقف تھا کہ ان کی ترقی غیر قانونی طور پہ روکی گئی ہے جو ان کی حق تلفی ہے۔ مورخہ 14 مئی کو ڈاکٹر ضیا زبردستی خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے کانفرنس ہال میں داخل ہو گئے جہاں پر نوشیروان برکی ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ ڈاکٹر ضیا نے ایک بار پھر ملاقات کے لئے وقت مانگا تو جواب میں پھر انکار ملا۔
اس پر ڈاکٹر ضیا غصے میں آگئے اور کینٹین سے چھ انڈے خرید کر کانفرنس ہال میں داخل ہو کر ڈاکٹر نوشیروان برکی پر داغ دئیے۔ یہ تو معلوم نہ ہوا کہ انڈے ڈاکٹربرکی کو لگے یا نہیں البتہ پولیس نے انہیں پکڑ کر ہال سے باہر نکال دیا۔
بات اگر یہاں تک محدود رہتی تو شاید بہت آگے نہ بڑھتی۔ مگر صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ کو جب معلوم ہوا کہ عمران خان کے کزن کو انڈے پڑے ہیں تو وہ وہاں آن پہنچے۔ آتے ہی انہوں نے گالی گلوچ کی اور اپنے ساتھ لائے مسلح افراد کو ڈاکٹر ضیا آفریدی کی دھلائی کا حکم دیا۔ ڈاکٹر آفریدی کو بہت مارا گیا اور انہیں سر سمیت جسم کے مختلف حصوں پہ شدید چوٹیں آئیں۔
سارا واقعہ ویڈیو کے ذریعے سوشل میڈیا پر آیا تو وائرل ہو گیا۔ اس واقعے کے خلاف پختونخواہ کے ڈاکٹروں نے ہڑتال کر دی ہے اور اب دو روز سے تمام ہسپتال بند ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے دو روز میں اس واقعہ پر تشکیل کردہ کمیٹی کو ایک سینئر ڈاکٹر پر حملے کی رپورٹ اور سفارشات مرتب کرنے کو کہا ہے۔ لیکن ہم نیوز ٹی وی کے نمائندے نے جب صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات سے پوچھا کہ کیا صوبائی حکومت اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کرے گی تو ان کا جواب تھا کہ اگر آپ بدتمیزی کریں گے تو غصہ آنا قدرتی اور جائز بات ہے۔ وہ سوال کا جواب دینے کی بجائے ڈاکٹر ضیاالدین پر حملے کو درست اور جائز قرار دیتے رہے۔
آج دوسرے روز بھی صوبے کے تمام ہسپتالوں میں تحریک انصاف کے صوبائی وزیر صحت کی اس سر عام غنڈہ گردی کے خلاف تمام ہسپتال مکمل طور پر بند رہے۔ ڈاکٹروں کا مطالبہ ہے کہ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر ہشام کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔
عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر آفریدی اور تین دوسرے افراد پر انڈے مارنے کے الزام میں مقدمہ درج ہے مگر صوبائی وزیر اور اس کے غنڈوں پر ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے۔
خیبر پختونخواہ پولیس کو اس واقعے کے بارے میں میڈیکل رپورٹ مل چکی ہے مگر یہ ”غیر سیاسی“ پولیس اس واقعے (جس کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے اور ساری دنیا نے دیکھی ہے) کی ایف آئی آر اس بہانے سے درج کرنے سے کترا رہی ہے کہ یہ میڈیکل رپورٹ ڈاکٹروں نے تیار کی ہے جو ڈاکٹر ضیا آفریدی کے ساتھی ہیں۔
رپورٹ تو ڈاکٹروں نے ہی تیار کرنی ہے مگر پولیس حکومت کو خوش کرنے کے لئے ابھی تک اس واقعے کی رپورٹ درج کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دوران صوبہ خیبر پختونخواہ میں تمام ٹیچنگ ہسپتالوں کو تقریباً پرائیویٹ کر دیا گیا ہے۔ عمران خان کے کزن جو ایک سینئر ڈاکٹر ہیں اور امریکہ میں رہتے اور پریکٹس کرتے ہیں کو وہاں سے بلا کر پختونخواہ کا شعبہ صحت ’ٹھیک‘ کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ وہ 2013ء سے ہر مہینے یہاں آ تے ہیں اور صوبے میں ’ہیلتھ ریفارمز‘ کا جائزہ لیتے ہیں۔جبکہ سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے بقول صوبے میں صحت کا نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے جس کے ذمہ دار ڈاکٹر برکی ہیں۔
2015ء میں انہیں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے نئے تشکیل کردہ بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا تھا۔اسی سال صوبائی سطح پر منتخب ڈاکٹروں کی میڈیکل کونسل پشاور ہائی کورٹ چلی گئی کہ یہ اقربا پروری ہے اور اس تقرری کو منسوخ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک امریکی شہری کو کیوں ہمارے سروں پر تھونپا گیا ہے۔ ابھی اس پٹیشن کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
پنجاب کے ڈاکٹروں کو صوبہ پختونخواہ کے ڈاکٹروں نے اپنے صوبے میں ہسپتالوں کی ’اصلاح‘ کے نام پر ہونے والی پرائیویٹائزیشن کے منفی اثرات اور مضمرات سے آگاہ کر دیا تھا کہ تمام ہسپتال اب پرائیویٹ افراد کے کنٹرول میں ہیں اور دو بڑے ہسپتالوں میں عمران خان نے اپنے کزن کو چیئرمین بنا دیا ہے جو کسی کی جائز بات سننے کو بھی تیار نہیں ہے۔ اسی وجہ سے جب پنجاب کے ہسپتالوں میں خیبر پختونخواہ والی ’اصلاحات‘ لانے کی کوششوں کا آغاز ہوا تو ڈاکٹر، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف متحد ہو کر ہڑتال پر چلے گئے۔ دس روز کے بعد اب یہ ہڑتال وقتی طور پر معطل کی گئی ہے اور مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔
تادمِ تحریر خیبر پختون خواہ میں ہڑتال جاری ہے۔ مین سٹریم میڈیا اِس ہڑتال کا بلیک آؤٹ کر رہا ہے یا صرف صوبائی حکومت کا موقف ہی پیش کر رہا ہے۔
ڈاکٹروں کے خلاف پی ٹی آئی حکومت کے وزرا اور ان کے غنڈوں کی کاروائیاں آئے روز پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اگر پنجاب میں بھی خیبر پختونخواہ والا نظام ہسپتالوں میں رائج ہو گیا تو مریضوں، ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے تمام عملے کی زندگی پہلے سے کہیں زیادہ اجیرن ہو جائے گی۔