حارث قدیر
آل پاکستان ایمپلائز، پنشنرز و لیبر تحریک کی قیادت نے اعلان کیا ہے کہ 17 فروری ملک بھر کے ملازمین پنشنروں اور مزدوروں کے حقوق کے حصول کا دن ہو گا۔ حکومت نے اگر پرامن احتجاج روکنے کی کوشش کی تو پورے ملک کی بجلی بند کرنے کے ساتھ تمام ایئرپورٹس اور پی آئی اے کا آپریشن روک دیا جائے گا، ریلوے کا پہیہ بھی جام ہو گا اور تمام محکمہ جات میں تالہ بند ہڑتال ہو گی۔
حکومت کو بہت وقت دیا گیا لیکن حکومت ملازمین کو ان کے جائز حقوق دینے کے بجائے آئی ایم ایف کی غلامی کر رہی ہے۔ واپڈا، اوجی ڈی سی ایل، سول ایوی ایشن اتھارٹی، پی آئی اے، ریلوے، سٹیل ملز، ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن جیسے اہم اداروں کی نجکاری ملک کو آئی ایم ایف کی غلامی میں دینے کے مترادف ہے۔ حکومت کا مزید کوئی لالی پاپ قبول نہیں کریں گے۔ اگر حکومت نے 17 فروری سے قبل ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے تو ملک بھر کے تمام اداروں کو جام کر دیں گے۔
ان خیالات کا اظہار آل پاکستان ایمپلائز، پنشنرز و لیبر تحریک کے رہبر تحریک محمد اسلم خان نے رہبر کمیٹی کے اجلاس سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ ”آل پاکستان ایمپلائز، پنشنرز و لیبر تحریک ملک کے تمام محنت کش طبقہ کی مشترکہ تحریک ہے جو اپنے پیش کردہ چارٹر آف ڈیمانڈز کے تمام مطالبات کی منظوری تک جدوجہد جاری رکھیں گی۔ انھوں نے کہا موجودہ حکومت محنت کش طبقے کے لیے بدترین حکمران ثابت ہوئی ہے۔ عمران خان مسند اقدار پر بیٹھ کر عوام سے کئے گئے تمام وعدے بھول گئے ہیں۔ حکومت کو 17 فروری تک کا وقت دیتے ہیں۔ اس سے قبل مطالبات منظور نہ کئے گئے تو لاکھوں ملازمین 17 فروری اسلام آباد پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے پرامن احتجاجی پڑاؤ ڈالیں گے اور اگر حکومت نے اس پرامن احتجاج روکنے کی کوشش کی تو پورے ملک کے تمام اداروں کے آپریشن روک دیئے جائیں گے۔“
انھوں نے مطالبات ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا کہ ”حکومت فوری طور پر اداروں کی نجکاری کا عمل روک دے اور تمام نکالے گئے ملازمین بحال کرے، تمام ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے کا اعلان کرے، تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ یکم جنوری 2021ء سے کیا جائے، پنشنرز کی مراعات میں اضافہ کیا جائے اور اپ گریڈیشن سے محروم تمام کیڈرز کی فوری اپ گریڈیشن کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے، تمام اداروں کے ملازمین کے لئے یکساں ٹائم سکیل پروموشن کا نظام رائج کیا جائے اور تنخواہوں و مراعات میں تفریق کا خاتمہ کیا جائے، ایم ٹی آئی کا کالا قانون واپس لیکر سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری بند کی جائے، مزدور اور سرکاری ملازمین کی کم از کم تنخواہ 30 ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا جائے۔“
انھوں نے کہا کہ ”ہم نے حکومت کے ساتھ جذبہ خیر سگالی کے تحت 3 ماہ تک مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا اور 14 اکتوبر سے 4 ماہ کا وقت دیا لیکن کسی ایک مطالبہ پر بھی اب تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ حکومت ملازمین کو تقسیم کرنے اور بیوروکریسی کے ذریعے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے لیکن ان کے یہ حربے کسی کام نہیں آئیں گے، سرکاری ملازمین، پنشنرز اور لیبر ورکرز اب جاگ چکے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول کیلئے متحد ہیں۔ اگر ان کے جائز مطالبات حل نہ کئے گئے تو اس ملک کا محنت کش طبقہ اپنے حق کیلئے انقلاب برپا کردیگا۔“
اس موقع پر ان کے ہمراہ واپڈا ہائیڈرو ورکرز یونین مرکزی چیئرمین حاجی اقبال خان، آئیسکو کے چیئرمین جاوید بلوچ، پی آئی اے یونین کے صدر رمضان لغاری، سول ایوی ایشن یونین کے صدر شیخ خالد محمود، یوٹیلٹی سٹورز سی بی اے کے چیئرمین سید عارف حسین شاہ، آل پاکستان گورنمنٹ ایمپلائز کنفیڈریشن کے صدر حاجی عبدالمناف، گورنمنٹ ایمپلائز کوآرڈی نیشن کونسل خیبرپختونخوا کے چیئرمین محمد ریاض خان، پی ٹی یو ڈی سی کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری ڈاکٹر چنگیزملک، آل پاکستان پیرا میڈیکل سٹاف فیڈریشن کے مرکزی صدر شرافت اللہ خان، پی ڈبلیو ڈی کے سید زیشان شاہ، میونسپل کارپوریشن یونین کے راجہ عبدالمجید، سی ڈی اے یونین کے راجہ اشتیاق، ایچ بی ایف سی کے راجہ پرویز، پنشنرز ایسوسی ایشن آزاد کشمیر کے سید نذیر حسین شاہ اور راجہ ممتاز، پیرامیڈیکل ایسوسی ایشن آزاد کشمیر کے قاضی تنویر، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی میڈم رخسانہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز کی صوبائی صدر علوینہ افتخار اور دیگر اداروں کے 60 سے زیادہ عہدیداران موجود تھے۔