پاکستان

42 ہزار سے زائد مہاجرین جموں کشمیر کو سندھ میں آباد کرنے کا منصوبہ

حارث قدیر

عسکری تربیت کیلئے آئے 42 ہزار مہاجرین جموں کشمیر 1989ء سندھ میں آباد ہونگے

غیر قانونی مہاجرین جموں کشمیر 1989ء کی سندھ میں مستقل آبادکاری کیلئے کام کا آغاز

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے مختلف شہروں میں قائم مہاجر کیمپوں میں مقیم 42 ہزار سے زائد مہاجرین جموں کشمیر 1989ء کو سندھ کے ضلع سجاول میں آباد کرنے کے منصوبے پر کام تیزی سے شروع کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کی تحریک پر صوبہ سندھ کے بورڈ آف ریونیو نے بذریعہ ڈپٹی کمشنر ضلع سجاول تقریباً 6 ہزار ایکڑ زرعی و رہائشی اراضی کی نشاندہی اور سروے کا عمل مکمل کر لیا ہے۔ خط و کتابت میں ان مہاجرین کو ”بھارتی مقبوضہ کشمیر کے غیر قانونی مہاجرین 1989ء“ کا عنوان دیا گیا ہے۔

ادھر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں مہاجرین جموں کشمیر کی دیکھ بحال اور آبادکاری کیلئے قائم محکمہ بحالیات کی جانب سے تیار کردہ ایک درخواست فارم کے ذریعے سے مہاجرین جموں کشمیر کی مختلف تنظیموں نے مستقل آبادکاری کیلئے مہاجرین کی فہرستیں مرتب کرنا شروع کر دی ہیں۔ تاہم محکمہ بحالیات نے مذکورہ درخواست فارم اور مہاجرین جموں کشمیر 1989ء کی صوبہ سندھ میں مستقل آبادکاری کے منصوبے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف سندھ کی قوم پرست جماعتوں اور عوامی ورکرز پارٹی نے مہاجرین جموں کشمیر 1989ء کو سندھ میں آباد کرنے کے منصوبہ کو سندھ کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مزاحمت کرنے کا اعلان بھی کیا ہے اور آبادکاری کا یہ فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

مہاجرین جموں کشمیر 1989ء

بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں 1988ء میں عسکری تحریک کا آغازہوا تھا، جس میں بڑے پیمانے پر کشمیری نوجوانوں نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی زیر سرپرستی مسلح تحریک میں حصہ لیا تھا۔ 1989ء میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستانی و بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کو تقسیم کرنے والی عارضی سرحد (لائن آف کنٹرول) عبور کر کے عسکری تربیت حاصل کرنے کیلئے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں داخل ہوئی تھی۔ ان نوجوانوں کی بڑی تعداد عسکری سرگرمیوں کو ترک کر کے یہیں مستقل آباد ہو گئی، یہ تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 10 ہزار سے کچھ زیادہ نفوس تھی۔ جب یہ نوجوان پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں آئے تھے تو انہیں مظفرآباد، باغ، کوٹلی اور دیگر جگہوں پر مختلف کیمپوں میں ایک ایک کمرے پر مشتمل رہائش دی گئی اور ماہانہ کچھ وظیفہ بھی انہیں دیا جاتا تھا۔

مستقل رہائش اختیار کرنے کے بعد تمام نوجوانوں نے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ہی شادیاں کر لیں اور تیس سال گزرنے کے بعد 10 ہزار سے کچھ زیادہ تعداد پر مشتمل ان نوجوانوں کے خاندانوں کی اب مجموعی تعداد 42 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ حریت کانفرنس اور عسکری تنظیموں کی قیادت میں موجود افراد کے علاوہ بڑی اکثریت انتہائی کسمپرستی کی حالت میں یہاں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

1947ء اور 65ء کے مہاجرین

برصغیر کی تقسیم کے وقت اس وقت کی شاہی ریاست جموں کشمیر کو بھی تقسیم کی بھینٹ چڑھایا گیا تھا۔ اس وقت بھی ایک بڑی تعداد میں جموں کشمیر میں ہجرت ہوئی تھی، اس کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھی بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر سے ایک بڑی تعداد میں مہاجرین پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی طرف ہجرت کر گئی تھی۔

اس وقت پاکستان کے مختلف شہروں میں مجموعی طور پر 18 لاکھ سے زائد مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان موجود ہیں، جو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی 12 نشستوں کے ذریعے اپنی نمائندگی کرتے ہیں۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی 1947ء اور 1965ء کے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، یہ مہاجرین بھی مختلف مہاجر کیمپوں یا مہاجر کالونیوں میں آباد ہیں جنہیں اس وقت متروکہ املاک میں سے اراضی الاٹ کی گئی تھی اور کچھ مہاجرین ایسے بھی ہیں جنہیں ابھی تک زمینیں الاٹ نہیں ہو سکیں۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں آباد مہاجرین کی تعداد کے مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق ان مہاجرین کی آبادی 70 سے 80 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

آبادکاری کے اس منصوبے کا مقصد اور نتائج

شبیر ڈار کہتے ہیں یہ منصوبہ اگست 2019ء سے ہی شروع کر دیا گیا تھا اور ان کے خیال میں یہ مسئلہ پاک بھارت بیک ڈور ڈپلومیسی کی کوششوں کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کے خاتمے اورلائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو مستقل کرنے کے بڑے منصوبے کا حصہ ہی لگ رہا ہے۔ جس طرح کی خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں، ان میں سب جھوٹ تو نہیں ہو سکتا۔

شبیر ڈار کا تعلق بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر سے ہی ہے اور وہ اسلام آباد میں ایک نجی ٹیلی ویژن سے منسلک ہیں۔ ’جدوجہد‘ سے گفتگوکرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ”موزوں اراضی کا سروے مکمل کر لیا گیا ہے۔ وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے دفتر میں بورڈ آف ریونیو سندھ اور دیگر ذمہ داران کا اجلاس ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیری تنظیموں کے ذریعے محکمہ بحالیات کے درخواست فارم بھی تقسیم کئے جا رہے ہیں۔“

انکا کہنا تھا کہ ”10 ہزار کے لگ بھگ خاندان ہیں جن کی آبادکاری کرنا مقصد ہے۔ پرانے مہاجرین بھی جو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں آباد کئے گئے ہیں وہ بھی اب ذمہ داری بن چکے ہیں۔ ان کے بارے میں بھی یہی سوچا جا رہا ہے کہ یہ ہمارے لئے ذمہ داری بن جائیں گے۔ اس لئے ایسی جگہ پر بھیجا جا رہا ہے تاکہ ان کی ذمہ داری سے نجات حاصل ہو سکے۔“

شبیر ڈار کہتے ہیں کہ ”مسلح تحریک کا سلسلہ بھی اب ختم ہو چکا ہے۔ تحریک چلانی ہوتی تو انہیں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ہی بسایا جاتا۔ جس جلد بازی کے ساتھ یہ اقدامات کئے جا رہے ہیں، اس سے لگ رہا ہے کہ اس کام میں حکمرانوں کی نیک نیتی شامل نہیں ہے۔“

مہاجرین اس سے متعلق کیا سوچتے ہیں؟

5 اگست 2019ء کو جب بھارت نے اپنے زیر انتظام جموں کشمیر کی تنظیم نو کا بل منظور کرتے ہوئے اسے دہلی کے زیر انتظام 2 الگ الگ حصوں میں تقسیم کر دیا تھا، اس کے بعد پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر نے بھی حریت کانفرنس کی قیادت سے ’آف دی ریکارڈ‘ گفتگو کے دوران یہ کہا تھا کہ حریت کانفرنس والوں کو آواز اٹھانی ہوگی، بولنا ہو گا، ورنہ یہ تمام دفاتر بند ہو جائیں گے۔ عسکری تحریک کی حمایت کا سلسلہ بند ہو جائیگا اور کشمیر کی تحریک کی صرف سیاسی حمایت ہی باقی رہے گی۔ حریت کانفرنس کی جانب سے کوئی احتجاج بھی نہیں کیا گیا اور اندرون خانہ ہونے والی تبدیلیوں کی بابت معلومات ہونے کے باوجود ان پر اپنی رائے تک بھی نہیں دی گئی۔

شبیر ڈار کا ماننا ہے کہ ”جو غریب مہاجرین ہیں وہ مجبور ہیں، ان کے پاس کچھ بچا ہوا نہیں ہے، وہ غریب ہیں اور بہت ہی برے حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس لئے وہ تو کچھ نہیں بولیں گے۔ انہیں اگر واپسی کا راستہ ملا تو واپس جائیں گے، اگر سندھ میں آباد کیا گیا تو وہیں چلے جائیں گے۔ ابھی تو یہ کہا جا رہا ہے کہ اراضی کی الاٹمنٹ کے علاوہ انہیں 5 سے 10 لاکھ کے درمیان کچھ امدادی رقم بھی دی جائے گی تاکہ وہ اپنی رہائش کا بندوبست خود کر سکیں۔ تاہم اس کے بعد چند سو روپے پر مشتمل ماہانہ ملنے والا اعزازیہ بند ہو جائے گا۔“

واضح رہے کہ پاکستان میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھارتی حکومت نے عسکریت کے سلسلے میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر جانے والے نوجوانوں کی گھر واپسی اور عام معافی کے ایک پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ جس میں ایک بڑی تعداد میں سابق عسکریت پسند واپس لوٹ گئے تھے۔ تاہم بعد میں وہ سلسلہ بند ہو گیا تھا۔

شبیر ڈار کہتے ہیں کہ ”مشروف دور میں 600 کے لگ بھگ خاندان واپس گئے تھے۔ وہ وہاں بہت مطمئن ہیں اور انہیں وہاں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ ان میں سے چند کو ایک مسئلہ درپیش ہے کہ جنکی بیگمات پاکستانی شہری تھیں انہیں سفری دستاویزات نہیں دی جا رہیں تاکہ وہ پاکستان میں اپنے عزیز و اقارب سے مل سکیں۔ اس وقت نیپال کے ذریعے سے یہ لوگ واپس گئے تھے، انہیں ٹکٹ اور کچھ رقم بھی دی گئی تھی۔ ابھی بھی اگر وہ راستہ کھل جاتا ہے تو مہاجرین کی اکثریت واپس لوٹ جائے گی۔“

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔