پاکستان

پارلیمان کے تقدس کا ڈھونگ

لال خان

پاکستان کی پارلیمان کتنی بااختیار ہے ویسے تو اس پر روشنی ڈالنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے لیکن وقتاً فوقتاً اس کے نمائندے اور کرتا دھرتا  اپنی بے بسی کا اظہار خود  بھی کرتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ دِنوں سپیکر قومی اسمبلی نے خود اعتراف کیا کہ علی وزیر اور محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنا ان کے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ قانونی اور آئینی طور پر اس ملک کے سب سے بالادست ادارے کے اعلیٰ ترین عہدیدار کا حال ہے۔ لہٰذا یہ بلاوجہ نہیں ہے کہ عوام کی وسیع اکثریت، جنہیں ’’ووٹ کی طاقت‘‘ کے بڑے بھاشن دئیے جاتے ہیں، اس جمہوریت اور اس کے انتخابات اور اداروں کو سنجیدہ نہیں لیتی ہے۔

برصغیر کی سیاسی اشرافیہ میں اپنے سابقہ برطانوی نوآبادیاتی آقاؤں کی پارلیمانی جمہوریت کا خصوصی احترام پایا جاتا ہے۔ ا س جمہوریت اور طرزِ حکمرانی کو بڑا مقدس سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یورپی طرز کی سیاست سے یہ سارا رومانس اور اس کی بھونڈی نقالی کی آرزو درحقیقت بالادست اور درمیانے طبقات تک ہی محدود ہے۔ حکمران طبقات کی اِس سیاست اور ’جمہوریت‘ کو عام لوگ کسی اور ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ محنت کش طبقات میں شاید ہی کوئی انسان پیسے کی اِس جمہوریت کے بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو اپنا ’’نمائندہ‘‘ تصور کرتا ہو گا۔

لیکن برطانوی پارلیمنٹ، جسے تمام پارلیمانوں کی ماں قرار دیا جاتا ہے، کے حالیہ سیکنڈل اور جرائم کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان جیسے ممالک کی بدعنوانی اور جرائم بھی شاید ماند پڑ جائیں۔ ایسے میں شاید ’سول سوسائٹی‘ کے بہت سے اصلاح پسندوں کے نازک جذبات کو بھی ٹھیس پہنچ جائے۔

سب سے اہم ایشو یہ ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں بھی بے پناہ مراعات اور مالیاتی مفادات پائے جاتے ہیں۔ برطانوی ممبران پارلیمنٹ کی سالانہ تنخواہ ہی 74,962 پونڈ فی کس ہے۔ اس میں انکی رہائش، سفر اور روزمرہ کے اخراجات اور الاؤنسز شامل نہیں ہیں۔ اس کے مقابلے میں برطانیہ میں اوسط سالانہ اجرت صرف 27,600 پونڈ ہے ۔ گویا یہ ممبران پارلیمنٹ برطانیہ کی 90 فیصد آبادی سے زیادہ آمدن رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں صرف 7 فیصد بچے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ جبکہ پارلیمنٹ کے تقریباً 33 فیصد ممبران نجی سکولوں سے تعلیم یافتہ ہیں۔ اسی طرح برطانیہ کے 75 فیصد وزرائے اعظم آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل رہے ہیں جبکہ آبادی کا صرف ایک فیصد ان اداروں تک رسائی رکھتا ہے۔ برطانیہ کی کل آبادی کا صرف 2 فیصد زمیندار ہے جبکہ 2016ء میں ٹوری پارٹی کے39 فیصد، سکاٹس نیشنل پارٹی کے 26 فیصد اور لیبر پارٹی کے 22 فیصد ممبرانِ پارلیمنٹ زمیندار تھے۔ اس پارلیمنٹ میں محنت مزدوری کا پس منظر رکھنے والوں کی تعداد صرف 4 فیصدہے جبکہ آبادی میں خود کو محنت کش گرداننے والوں کی تعداد 60 فیصد تک ہے۔ یوں پارلیمانی نمائندوں کی بھاری اکثریت کا تعلق حکمران طبقات کے پرانے خاندانوں یا نئے کاروباری دھنوانوں سے ہے۔

یہ مراعات یافتہ گورے (زیادہ تر مرد حضرات) بھلا وسیع تر عوام کے مسائل کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ ان کے دکھ درد کا احساس کیونکر کر سکتے ہیں؟ اسی بالادست طبقاتی پس منظر اور مفادات کی بدولت ان کی پالیسیاں بھی زیادہ تر مزدور دشمنی اور سامراجی غلبے کے مقاصد پر مبنی ہوتی ہیں۔ انہیں یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ تعلیمی اداروں کی فیسوں میں بے پناہ اضافوں اور سرکاری نظامِ صحت کی نجکاری سے آبادی کی اکثریت تعلیم و علاج سے محروم ہو جائے گی۔

سیاسی اشرافیہ کے عوام سے کٹ جانے کی اسی کیفیت میں برطانوی لیبر پارٹی میں اچانک ایک خاموش بے چینی کے پھٹ پڑنے سے جیرمی کوربن جیسے شخص کا پارٹی لیڈر منتخب ہو جانا برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے لئے بڑا دھچکا تھا۔ کوربن کھلے عام خود کو ’مارکسسٹ‘ اور جمہوری سوشلسٹ قرار دیتا ہے، تعلیم و علاج کی ہر شہری تک مفت فراہمی کا پروگرام پیش کر رہا ہے اور لیبر پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کی اجارہ داری کو ختم کر کے عام پارٹی ممبران کو اختیارات دینے کے لئے پارٹی میں تگ و دو کر رہا ہے۔ فلسطین سے لے کر کشمیر تک دنیا بھر میں ریاستی جبر کے شکار عوام کی حمایت اور سامراجی جنگوں کی مخالفت کی پاداش میں کارپوریٹ میڈیا اس کو نشان عبرت بنانے کی مہم میں دن رات مگن ہے۔ لیبر پارٹی کی پارلیمانی پارٹی (جو زیادہ تر پارٹی اشرافیہ ہے اور دائیں بازو کی نمائندگی کرتی ہے) نے بھی اس کے خلاف مسلسل سازشوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ لیکن اس کا سب سے بڑا گناہ ریلوے، توانائی، تعلیم، علاج اور دوسرے کلیدی شعبوں کو قومی تحویل میں لینے کی بات ہے۔ تاہم بالخصوص 2008ء کے بعد سے دائیں بازو کی ٹوری پارٹی نے برطانوی عوام کو جس طرح پے درپے معاشی حملوں کا نشانہ بنایا ہے اس کے پیش نظر آئندہ انتخابات میں جیرمی کوربن کے جیتنے کے امکانات خاصے روشن ہیں۔ برطانیہ میں جاری شدید سیاسی اور معاشی بحران کی کیفیت میں یہ انتخابات کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں۔

گو علامتی ہی سہی لیکن آج بھی برطانیہ میں بادشاہت قائم ہے اور اس پارلیمان کو ملکہ عالیہ کے سامنے اطاعت کا بھرپور مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ ہر نیا وزیر اعظم سب سے پہلے بکھنگم پیلس حاضری دیتا ہے۔ اسی طرح برطانوی پارلیمنٹ کے ’’آداب‘‘ اور طور طریقے بھی زیادہ تر وکٹورین دور کے ہیں۔ لائیڈ جارج، بینجمن ڈسریلی، ونسٹن چرچل جیسے پرانی برطانوی اشرافیہ کے نمائندے اور بعد میں مارگریٹ تھیچر اور ٹونی بلیئر جیسے نودولتیے، جنہیں بڑا گھاگ سیاستکار اور پارلیمانی اقدار کا امین بنا کر پیش کیا جاتا ہے، خونخوار سامراجی گماشتے اور غنڈے تھے جنہوں نے نہ صرف دنیا بھر میں قتل وغارت کا بازار گرم کیا بلکہ بوقت ضرورت برطانوی محنت کشوں کو بھی بدترین جبر و تشدد کا نشانہ بنایا۔

لیکن اگر ہم جنوب ایشیا میں اس ’’پارلیمانوں کی ماں‘‘ کی چربہ پارلیمانوں کا جائزہ لیں تو حقیقت کہیں زیادہ ہولناک ہے۔ بھارت جیسے غریب ملک میں پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے لئے برطانیہ یا امریکہ سے کہیں زیادہ اخراجات آتے ہیں اور بھارتی انتخابات دنیا کے سب سے مہنگے انتخابات ہوتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی اس پارلیمنٹ میں غنڈوں اور قتل اور ریپ کے ملزمان کی تعداد 87 فیصد تک بن جاتی ہے۔

اسی طرح پاکستان کی پارلیمنٹ ہے جسے عموماً فوجی آمروں نے ہائی جیک کیے رکھا لیکن جب بھی معرضِ وجود میں آئی اس کا ممبر بننے کے ریٹ دسیوں کروڑ تک چلے گئے۔ انتخابی اخراجات سے کہیں زیادہ دولت ان ’’نمائندوں‘‘ نے پارلیمنٹ میں رہ کر حاصل کرنی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کے ممبران کی نجی بحثوں میں نظریات تو دور کی بات مروجہ بورژوا سیاست بھی کبھی موضوع نہیں بنتی۔ بس ایک دوسرے سے مال بنانے کے طریقہ ہائے واردات سیکھے اور سکھائے جاتے ہیں۔

جیسی آج کل صورتحال چل رہی ہے یہاں کے مصنوعی آداب بھی تقریباً روزانہ ہی ٹوٹ کے بکھر جاتے ہیں۔ جو لچر گفتگو اور بیہودہ مزاح ہوتا ہے وہ یہاں کے حکمران طبقات کی اپنی اخلاقی اور ثقافتی گراوٹ کی غمازی کرتا ہے۔

اس پارلیمنٹ میں بھی زیادہ معزز اور محترم ایسے افراد کو گردانا جاتا رہا ہے جو سب سے ظالم جاگیردار اور سرمایہ دار ہوتے ہیں۔ ان میں دولتانے، ٹوانے، نون، گجر، نواب، سردار، وڈیرے، خان اور آج کل کالے دھن کے سلطان اس پارلیمنٹ کی روایات و آداب کے سرخیل بنا کر پیش کیے جاتے ہیں۔

اول تو اس ایوان میں کوئی محنت کش یا درمیانے طبقے کی نچلی پرتوں کا فرد اپنی اصل حیثیت میں دولت کے بغیر داخل ہی نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی اِکا دُکا آ بھی جائے تو اسے گمراہ کرنے کے لئے پارلیمانی ’’آداب‘‘، قوانین، طریقہ کار اور دوسری قانونی شقوں کی پیچیدگیوں میں اس طرح غرق کر دیا جاتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا حقیقی حصہ بننے کی تگ و دو میں ہی پھنس جاتا ہے۔ پھر زیادہ تر وہ یہ سبق حاصل کرتا ہے کہ پہلے اپنا کچھ بنا لیا جائے، انقلابی سیاست تو ادھر ہی ہے۔ اگر وہ نظریاتی طور پر کمزور ہو اور کسی انقلابی تنظیم کے ڈسپلن میں نہ ہو تو اس سیاسی اشرافیہ کا حصہ بننے کی تگ و دو میں ناگزیر طو پر بک جاتا ہے اور اپنے ہی طبقے کا سب سے بڑا غدار بن جاتا ہے۔ لیکن جو کوئی نہ جھکے نہ بکے اسے پھر نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ہر جائز و ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے اور کماتے چلے جانے سے ہٹ کر ہر سوچ کو آج سماجی نفسیات سے کھرچ دیا گیا ہے۔ لیکن آج سماج پر حاوی اس غلیظ نفسیات سے پاک معاشرے ماضی میں بھی رہے ہیں اور مستقبل میں جدید بنیادوں پر ایسا معاشرہ تعمیر کرنے کے سوا کوئی چارہ انسانیت کے پاس نہیں ہے۔ ایسے غیر استحصالی اور غیر طبقاتی سماج کی جمہوریت ہی حقیقی معنوں میں عام لوگوں کی نمائندہ ہو گی۔

Lal Khan
Website | + posts

ڈاکٹر لال خان روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رُکن تھے۔ وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے انٹرنیشنل سیکرٹری اور تقریباً چار دہائیوں تک بائیں بازو کی تحریک اور انقلابی سیاست سے وابستہ رہے۔