خبریں/تبصرے

ظفر ہلالی کا ہتک آمیز ٹویٹ پاکستانی ایلیٹ کی فسطائیت کا اظہار ہے

حارث قدیر

پاکستان کی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کے مکمل نتائج آنے کے فوری بعد پاکستان کے ایک سابق ڈپلومیٹ اور سرکاری تجزیہ نگار ظفر ہلالی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اکثریت سے فیصلہ کرنے والے ووٹرز کو جاہل قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ ووٹ دینے اور انتخاب کی مہارت کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ ان کے بقول ان پڑھ اور جاہل لو گ ایسے امیدواران کو کامیاب نہ کروا لیں جنہیں ریاست منتخب نہیں کروانا چاہتی۔

10 اپریل کی رات 1 بجے کئے جانے والے اپنے ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ”لوگوں کے بغیر تعلیم ووٹ دینے سے ہم پاکستانیوں کو یہ سبق لینا چاہیے کہ یہ عمل کتنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ کس کو ووٹ دینا ہے اس کا انتخاب کرنا ایک مہارت ہے کوئی بے ترتیب الہام نہیں ہے۔ دیگرمہارتوں کی طرح اسے بھی پڑھایا جانا چاہیے ورنہ تباہی ہو سکتی ہے۔“

یہ کہ جمہوریت کے عمل میں صرف پڑھے لکھے لوگ حصہ لیں، ایک ایسا بیانیہ ہے جو کئی طرح سے غلط ہے۔ ظفر ہلالی جیسے لوگ اکثر اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ آئیے اس بیانئے کی چند بنیادی خامیاں دیکھتے ہیں:

اؤل: پیشہ وروں اور درمیانے طبقے کے دانشوروں کا یہ بیانیہ کے ان پڑھوں کا ووٹ اس لئے نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ انہوں نے میڈیکل، بزنس ایڈمنسٹریشن یا میتھامیٹکس نہیں پڑھی ہوئی۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو ہر آدمی ان پڑھ ہوتا ہے۔ اگر آپ انجینئر ہیں تو لازمی نہیں کے ڈاکٹر بھی ہو سکیں، اگر آپ نے بزنس ایڈمنسٹریشن پڑھی ہے تو آپ کیمیا دان نہیں ہو سکتے۔ ہر انسان مخصوص شعبہ میں ہی مہارت حاصل کر سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح کسانوں کے پاس اپنا علم و ہنرہے جو انہوں نے صدیوں کے تجربات سے حاصل کر رکھا ہے۔ جسمانی مشقت کے دیگر شعبہ جات سے منسلک محنت کشوں کو بھی خاص مہارتیں حاصل ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر وہ اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنی اور اپنے خاندانوں کی زندگیاں تعمیر کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اپنے مستقبل کی تعمیر کیلئے فیصلہ جات کرنے کا ہنر ہر اس انسان کو حاصل ہوتا ہے جو صدیوں سے اپنی محنت سے زندگی تعمیر کرتا آیا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ ایم اے ریاضی والے کو ووٹ کا حق کیوں دیا جائے؟ کیوں نہ صرف ایم اے سیاسیات والے کو یہ حق دیا جائے؟ یا یہ کہ ایم سیاسیات والے کو ہی کیوں؟ کیوں نہ صرف ان کو یہ حق دیا جائے جنہوں نے پی ایچ ڈی سیاسیات کر رکھی ہو؟

دوم: یہ کہ وائٹ کالر جاب کرنے والے زیادہ عقلمند ہیں اور جسمانی مشقت کرنے والے حقیر ہیں ایک طبقاتی تعصب کے سوا کچھ نہیں۔ صدیوں سے پھیلائی جانیوالے اس تعصب کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ محنت ذہنی ہو یا جسمانی…دونوں کاموں کی اپنی اہمیت ہے۔ دیکھا جائے تو جسمانی محنت والا کام زیادہ مشکل اور اہم ہے۔ محنت کی تقسیم نے تسخیر کائنات کے عمل کو مختلف جہتوں سے تیز کیا ہے۔ محنت کی مختلف انواع کا موازنہ اور تقابل ایک سرمایہ دارانہ سوچ ہے جس کے ذریعے سے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ کچھ کاموں کو برتری حاصل ہے اور کچھ کام حقیر ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر کے کام کو زیادہ اہم اور نرس کے کام کو کم اہم قرار دیا جاتا ہے حالانکہ نرس کے ساتھ کے بغیر ڈاکٹر کا کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ ہسپتال کی صفائی کا کام کرنے والوں کو سب سے حقیر سمجھا جاتا ہے جبکہ صفائی کرنے والے اگر نہ ہوں تو ایک دن بھی ہسپتال نہیں چلائے جا سکتے۔ درحقیقت اجرت کے فرق کی وجہ سے پیشوں یا محنت کی اس تقسیم کو حقیر اور بدتر سمجھا جاتا ہے۔ اجرت کا تعین ’قوت محنت‘کی مخصوص نوع کی تیاری پر خرچ ہونے والی قوت محنت اور اسکے متبادل کی تیاری پر صرف ہونے والی قوت محنت کی بنیاد پر منڈی کے اصولوں کے تحت مقرر کی جاتی ہے۔ اجرت کے فرق کی وجہ سے پیشے کو حقیر اور بدتر سمجھنے والا رجحان سرمایہ داری کی مقابلہ بازی کی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔

سوم: یہ بھی ایک گھٹیا مفروضہ ہے کہ پڑھے لکھے افراد الیکشن میں بہتر فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ بیانیہ بھی تاریخی طور پر غلط اور بے بنیاد ہے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ کا ہی موازنہ کیا جائے تو مزدوروں اور کسانوں نے انتخابی تاریخ میں ہمیشہ بہتر فیصلے کئے ہیں۔ مزدوروں اور کسانوں نے سیکولر اور سوشلسٹ امیدواروں کو ووٹ دیئے ہیں۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں کے پڑھے لکھے افراد نے عموماً دائیں بازو اور رجعت پرست قوتوں کو ووٹ دیا۔ محنت کشوں نے ایک عرصہ ترقی پسند ایجنڈا رکھنے والی قوتوں کو ووٹ دیا۔ آخری الیکشن کی ہی مثال لے لیجئے۔ سب سے بڑھے لکھے شہر اسلام آباد نے طالبان خان کی تحریک انصاف اور اسکی جڑواں بہن مسلم لیگ کے امیدواروں کو ووٹ دیا ہے اس کے برعکس وانا وزیرستان کے پسماندہ اور ان پڑھ سمجھے جانے والے ووٹرز نے سوشلسٹ امیدوار علی وزیر کا انتخاب کیا ہے۔

آخر میں یہ عرض کرنا ہے کہ پہلے تو یہ سرمایہ داری نظام محنت کشوں کوتعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم رکھتا ہے۔ پھر ظفر ہلالی جیسے ’جمہوریت پسند‘ اعلان کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو ووٹ کے حق سے بھی محروم کر دو۔

جمہوریت کے ذریعے محنت کش عوام کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ تعلیم، صحت، روزگار اور دیگر مسائل کی بازیابی کیلئے بھی محض ووٹ کا حق استعمال کر سکیں (کم از کم تھیوری کی حد تک)۔ ظفر ہلالی جیسے نام نہاد دانشورووٹ کے ذریعے محنت کش عوام سے اپنی مرضی کا حکمران منتخب کرنے کا یہ حق بھی چھیننا چاہتے ہیں۔

آخر میں ظفر ہلالی صاحب سے پوچھنا تھا: صرف ووٹ کا حق پڑھے لکھے لوگوں کے پاس ہونا چاہئے یا ملک میں آمریت مسلط کرنے کے لئے بھی پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے؟

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔