لاہور (نامہ نگار) پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ (پی سی ٹی بی) نے یکساں قومی نصاب کے اجرا کیلئے نصابی کتب کی اشاعت کرنے والے پبلشروں کیلئے جائزے اور منظوری کے این او سی کی فیسوں میں کمی کرنے کی بجائے معاملہ مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ این او سی کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافے کے خلاف احتجاج کے نتیجے میں وفاقی حکومت نے فیسوں پر نظر ثانی کی ہدایت کر رکھی تھی۔
رواں ماہ 5 اپریل کو پی سی ٹی بی نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے تحت پرانے دونوں نوٹیفکیشن خارج کر دیئے گئے ہیں۔ نئے نوٹیفکیشن کے تحت این او سی حاصل کرنے کا عمل پہلے سے کہیں زیادہ غیر واضح ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے پبلشر مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ یکساں قومی نصاب پری نرسی سے پانچویں جماعت تک کیلئے نافذ کیا جا رہا ہے۔
دی نیوز میں شائع ہونیوالے ایک مضمون میں ماہر تعلیم ڈاکٹر عائشہ رزاق نے اس نئے نوٹیفکیشن سے متعلق لکھا ہے کہ ”نوٹیفکیشن میں جائزے کے مرحلے کو ایک سے بڑھا کر تین مرحلے مقرر کر دیئے گئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں پانچ رکنی ’بیرونی جائزہ کمیٹی‘ نصاب کا جائزہ لے گی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ’غیر متعینہ الزامات متعلقہ پبلشر کے ذریعے طے کئے جائیں گے جس کا واضح مطلب رشوت دینے کی دعوت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔“
نوٹیفکیشن کے تحت دوسرا جائزہ متحدہ علما بورڈ کرے گا۔ اس جائزے کی لاگت بھی غیر متعینہ ہے اور پبلشر اورجائزہ لینے والوں پر چھوڑ دی گئی ہے۔ جائزوں کا تیسرے مرحلہ پرپی سی ٹی بی کی اپنی ’انٹرنل ریویو کمیٹی‘ جائزہ لے گی، جو این او سی کیلئے 10 ہزار روپے فیس بھی چارج کرے گی۔
نئے تعلیمی سال کیلئے شائع ہونیوالی درسی کتب کے علاوہ پرانی درسی کتب استعمال کرنے پرپابندی نے بھی مسائل کو گھمبیر بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جائزے کے پہلے 2 مرحلے عبور کر چکنے والے مسودے 30 اپریل سے قبل پیش کرنے کی ڈیڈ لائن مقرر کر لی گئی ہے جس پر پورا اترنا پبلشروں کیلئے ممکن نہیں ہے۔ پی سی ٹی بی انٹرنل ریویو اور این او سی کے اجرا میں بھی ایک مہینے کا وقت لگے گا۔ اگر پبلشر ڈیڈ لائن پر مسودہ فراہم بھی کر دیں تو این او سی کے اجرا میں 31 مئی تک کا وقت لگے گا۔ این او سی جاری کرنے کی آخری تاریخ یکم جولائی مقرر کی گئی ہے۔ دونوں صورتوں میں لاکھوں کتب کے پرنٹ اور تقسیم کرنے کیلئے بہت کم وقت باقی ہے۔
اضافی مطالعاتی موادکا، جو پہلے کی اطلاعات میں اس جائزے کے عمل سے مستثنیٰ تھے، اب بھی اسی جائزہ کے عمل سے گزرنا ضروری ہے اور اسکولوں میں استعمال سے پہلے این او سی کی بھی ضرورت ہو گی۔ ایک پبلشر کے مطابق یکساں قومی نصاب کے علاوہ کوئی بھی سرکاری یا نجی سکول اضافی مضمون نہیں پڑھا سکتا۔ پنجاب نے کمپیوٹر سٹڈیز، آرٹ، میوزک، ہینڈ رائٹنگ اور ڈرامہ کی تعلیم کو واضح طور پر مسترد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب حکومت کے مطابق حکومت کا تیار کردہ یکساں قومی نصاب متوازن ہے اور پرائمری سطح پر بچوں کیلئے کافی ہے۔ ایک طرف وفاقی حکومت پرائمری نصاب میں اکیسویں صدی کی تعلیمات دینے کے دعوے کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف پنجاب حکومت کمپیوٹر کو بوجھ قرار دے رہی ہے۔ بنیادی نصاب کی زبان کے بھی مسائل ہیں جو حل طلب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یکساں قومی نصاب سے صوبہ سندھ دستبردار ہو چکا ہے یہاں تک کے مدرسوں کے نمائندے بھی سراپا احتجاج ہیں۔
یکساں قومی نصاب کے تحت پرائمری نصاب میں مذہبی مواد کو شامل کرتے ہوئے اقلیتوں کے آئینی حقوق کو ملحوظ خاطر نہ رکھے جانے پر چیف جسٹس گلزار احمد بھی یہ ریمارکس دے چکے ہیں کہ اس سے بہترہے 1960ء کے وقتوں کا نصاب ہی دوبارہ رائج کر دیاجائے، اس میں موجودہ وقت سے بہتر طریقے سے مذہبی مواد کو شامل کیا گیا تھا۔