ڈاکٹر مظہر عباس
شیخ محمد رشیداپنی پوری زندگی نہ صرف کسانوں اور مزدوروں کے لئے سرگرم رہے بلکہ اصلاح پسند سوشلسٹ پالیسیوں پر قائم بھی رہے۔ ان کا خیال تھا کہ معاشرتی اداروں کی ترقی سوشلزم کی منزل کی طرف لے جائے گی بشرطیکہ اس کے لئے کام کیا گیا ہو لہذا انہوں نے انقلاب کی بجائے اصلاحات کے ذریعہ سوشلسٹ جمہوریت کے لئے تگ و دو کی۔ اسی لئے وہ مختلف کسان تنظیموں، سیاسی جماعتوں، اور حکومتوں کا حصہ رہے۔
شیخ محمد رشید 24 مئی 1915ءکو ضلع شیخوپورہ کے گاوں کلال والا کے ککزئی قبیلے میں پیدا ہوئے۔ یہ گاوں لاہور سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر لاہور، شرقپور روڈ پر واقع ہے۔ ان کے والد، شیخ مہر علی، گاوں کے ایک چھوٹے زمیندار اور نمبردار تھے۔
شیخ رشید عملی طور پر سوشلزم کے اصولوں سے اس وقت واقف ہوئے جب انہوں نے چودہ سال کی عمر میں میٹرک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی وراثتی زمینوں میں کاشتکاری شروع کی۔ گاوں میں قیام کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ گاوں کے کاریگر طبقہ (جن کو عام طور پہ دیہات میں کمی کہا جاتا ہے) کو کمتر مخلوق سمجھا جاتا ہے اور انہیں زمینداروں کے برابر بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ انہیں بیگار (یعنی بے اجرت مزدوری) کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ اس طرح جاگیرداروں کے ہاتھوں کسانوں کے استحصال نے شیخ رشید کومتحرک کیا کہ وہ استحصال کرنے والے طبقات (زمیندار اشرافیہ) کے خلاف جدو جہد کریں تاکہ ان کے ہاتھوں کسانوں کے استحصال کو روکا جا سکے۔ نتیجتاً جاگیردار ان کے خلاف ہو گئے اور ایک بار جب شیخ رشید نے ایک بڑھئی کی مزدوری پر ان سے جھگڑا کیا تو جاگیرداروں نے انہیں اتنا پیٹا کہ وہ بمشکل موت کے منہ سے بچے۔
سوشلزم اور کسانوں اور مزدوروں کے لئے ان کی کی گئی جدوجہد در اصل ان کی اپنی زندگی میں کئے گئے بہت سے کاموں سے ظاہر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، انہوں نے اپنے سسر، شیخ مہر دین، کے مکان میں رہائش پزیر ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ گھر خان پور (جو کہ اس وقت ریاست بہاولپور کا حصہ تھا) میں واقع تھا لہٰذا وہ اپنی بیوی، حمیدہ بیگم (جو کہ شیخ مہر دین کی اکلوتی اولاد تھی) کو لے کر اپنے سسر کے گھر سے نکل گئے اور کرائے کے گھر میں رہنے لگے اور وہیں (ریاست بہاولپور میں) حلقہ قانونگو کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ تاہم، کسانوں اور مزدوروں کو سوشلسٹ تحریک کے لئے متحرک کرنے کے لئے انہوں نے چھ سال بعد یہ ملازمت چھوڑ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس ملازمت کی وجہ سے کسانوں اور مزدروں اور سوشلسٹ تحریک کو وقت نہیں دے پاتے تھے۔
انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1937ءمیں عنایت اللہ خان مشرقی کی خاکسار تنظیم میں اس وقت شامل ہو کر کیا تھا جب وہ قانونگو کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے 1942ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی کیونکہ وہ بھانپ چکے تھے کہ مسلم لیگ 23 مارچ 1940ءکو مستقبل کے بارے میں ایک واضع حکمت عملی کا اعلان کر چکی تھی لہٰذا جلد ہی وہ تحریک پاکستان کے پرجوش کارکن بن گئے۔ انہوں نے پارٹی کے لئے حمایت اکٹھی کرنے کے لئے اپنے تانگہ پر سوار ہو کر لاہور کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنا شروع کر دیا۔ اسی لئے ان کے تانگہ کو’مسلم لیگ کا تانگہ‘ کا نام دیا گیا۔ انہوں نے پنجاب میں ہندو مہاسبھا کے غنڈہ گرد جتھوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مزاحمتی تنظیم بھی ترتیب دی۔
قیام پاکستان سے چند ماہ قبل، رشید نے دیگر کارکنوں کی مدد سے مسلم لیگ میں ایک ترقی پسند گروپ تشکیل دیا۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے نواب زادہ لیاقت علی خان کے بیک وقت وزیر اعظم پاکستان اور صدر آل پاکستان مسلم لیگ بننے کے اقدام کی مخالفت کی۔ شیخ رشید نے استدلال کیا کہ لیاقت علی خان بیک وقت حکومت اور پارٹی کی سربراہی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ مسلم لیگ کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے معاشرتی جمہوریت کے فروغ کی بجائے آمریت اور اقتدار میں ارتکاز کی منزلیں طے ہوں گی۔ شیخ محمد رشید کے ان دلائل کو کوئی اہمیت نہ دی گئی لہٰذا انہوں نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔
لیگ سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد رشید نے سردار شوکت حیات خان، میاں محمود علی قصوری اور میاں افتخارالدین جیسے سوشلسٹ جاگیرداروں کے ساتھ مل کر 1950ءمیں آزاد پاکستان پارٹی کی بنیاد رکھی جس کا منشور انہوں نے فیض احمد فیض کے ساتھ مل کر تیار کیا۔ تاہم، جلد ہی یہ سیاسی جماعت زمیندار اشرافیہ کی سازشوں کا مرکز بن گئی۔ مثال کے طور پر، میاں افتخارالدین نے خان عبدالغفار خان کو اس جماعت میں شامل کرنے کی کوشش کی جس پر شیخ رشید نے 1954ءمیں احتجاج کیا اور یہ دلیل دیتے ہوئے کہ خان کی سیاست سوشلزم کی بجائے لسانی اور نسلی خطوط پر مبنی تھی پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔
آزاد پاکستان پارٹی چھوڑنے کے بعد، رشید نے ایک نئی سیاسی جماعت، عوامی جمہوری پارٹی، کی بنیاد رکھی۔ اس کا مقصد کسان طبقوں میں ان کے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے متحرک اور منظم ہونے کے لئے بیداری پیدا کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زمیندار اشرافیہ کے پارٹی میں داخلے پر پابندی عائد کردی۔ انہوں نے پارٹی کا کنوینر منتخب ہونے کے بعد کسان کمیٹی کا الحاق اس پارٹی سے کر دیا۔ تاہم، آزاد جمہوری پارٹی بھی جلد ہی غیر فعال ہو گئی۔
شیخ رشید نے 1955ءمیں پاکستان کسان فرنٹ تشکیل دیا اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ نیشنل عوامی پارٹی کے علاوہ باقی تمام جماعتوں نے دعوت قبول کرتے ہوئے اس میں شمولیت اختیار کی۔ پاکستان کسان فرنٹ نے مہاجرین کی بحالی کے مطالبے کے لئے ریلیاں، جلوس، کانفرنسیں اور میٹنگیں منعقد کیں۔ علاوہ ازیں مہاجرین کی بحالی کے لئے حکمت عملی بھی تجویز کی۔ تاہم، حکومت نے پاکستان کسان فرنٹ کے مطالبات پر توجہ نہ دی۔ اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے رشید نے کسان تحریک چلانے کی تجویز پیش کی اور کارکنوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے حکومت پہ دباو ڈالنے کے لئے اپنی گرفتاریاں دیں۔ تاہم، جماعت اسلامی نے اس تجویز کی مخالفت کی، جس کے نتیجے میں کسان فرنٹ ٹوٹ گیا۔
اس کے بعد رشید نے کسان کمیٹی کی سربراہی کی جس نے جولائی 1956ءمیں لاہور میں غیر دعویدار مہاجر ٹینینٹس کے انخلا کے خلاف احتجاج کیا۔ اپنے مطالبات منوانے کے لئے اور حکومت پہ دباو ڈالنے کے لئے کسان کمیٹی اور آزاد جمہوری پارٹی نے شیخ رشید کی سربراہی میں 11 جولائی 1956ءکو کسان تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس تحریک میں ہزاروں کسانوں نے شمولیت کی جس کے نتیجے میں بے دخلی کے نوٹسز منسوخ کر دیئے گئے۔ مزید برآں، حکومت نے یہ یقین دہانی کرائی کہ بے دخل ٹینینٹس کو یا تو بحال کر دیا جائے گا یا متبادل زمین (ان کی ترجیحات کے مطابق) الاٹ کی جائے گی۔ گو اس معاہدے پر عمل درآمد بحث طلب ہے لیکن رشید کی کاوشیں داد کی مستحق ہیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ نو آبادیاتی پنجاب کے بعد یہ پہلی منظم کسان تحریک تھی۔
شیخ رشید نے 28 اور 29 مئی 1966ءکو لاہور میں ایک عوامی کنونشن کا انعقاد کیا جس میں انہوں نے کسانوں اور کارکنوں کو جاگیرداری کے خاتمے کے لئے منظم جدوجہد شروع کرنے کے لئے ایک نئی سیاسی جماعت یعنی ”پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی“ کے قیام کی تجویز پیش کی۔ مجوزہ پارٹی تو قائم نہیں ہو سکی لیکن بعد ازاں اس کے منشور کو پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور میں شامل کر لیا گیا۔
شیخ رشید 30 نومبر 1967ءکو وجود میں آنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے پارٹی کے منشور میں جاگیرداری کے خاتمے اور کوآپریٹو فارمنگ کی شقیں شامل کرنے کی یقین دہانی کے بعد ہی انہوں نے کسان کمیٹی کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے فاونڈیشن اینڈ پالیسی ڈاکومنٹ (یعنی منشور) کے مسودے کے لئے بنائی گئی کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ منشور کی سوشلزم کے ساتھ مطابقت ہو۔ پارٹی کارکنوں میں پارٹی کے منشور اور سوشلسٹ نظریہ کو فروغ دینے کے لئے انہوں نے 1969ءمیں ہفتہ وار میگزین، دہقان، شروع کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت بھٹو کے سوا زمیندار اشرافیہ کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔ تاہم، بعد میں زمیندار اشرافیہ نے گروہ در گروہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا شروع کر دی۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ زمیندار اشرافیہ کو پارٹی ٹکٹ نہ دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دسمبر 1970ءمیں پاکستان میں ہونے والے پہلے عام انتخابات میں درمیانے یا نچلے طبقے کے کافی لوگ اسمبلیوں کے لئے منتخب ہوئے تھے۔
پنجاب کسان کمیٹی رشید گروپ کا دعوی ہے کہ 1970ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی ان کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھی کیونکہ پنجاب کے عوام نے ان کے کہنے پہ تبدیلی کے حق میں اور بہتر مستقبل کے لئے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ اسی لیے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ انتخابات ذات یا برادری کے بجائے نظریے کی بنیاد پر لڑے گئے تھے۔
وہ ذوالفقار علی بھٹو کے قول و فعل میں تضاد سے بخوبی واقف تھے۔ نظریاتی طور پہ بھٹو سوشلسٹ تھے جبکہ عملی طور پر انہوںنے زمیندار اشرافیہ کو وزیراعلی، گورنر اور وزارت کے عہدوں پر مقرر کر رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی اصلاحات سمیت حکومتی پالیسیوں کے نفاذ کی ذمہ داری بھی انہیں دے رکھی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ شیخ رشید اور غلام مصطفی کھر (جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک زمیندار) کو پیپلز پارٹی پنجاب کا بالترتیب چیئرمین اور سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ بھٹو نے 1977ءکے انتخابات میں اکثریتی پارٹی ٹکٹ زمیندار اشرافیہ کو دیئے تھے۔ علاوہ ازیں 1977ءمیں حکومت پر فوجی جرنیلوں کے قبضے کے وقت، 22 میں سے 16 وفاقی وزرا زمیندار اشرافیہ سے تھے۔ اس سب کے باوجود شیخ رشید نے پارٹی نہیں چھوڑی بلکہ پارٹی کے اندر رہ کے تبدیلی کے لئے جدوجہد جاری رکھی۔
یہ کہا جاتا ہے کہ غلام مصطفی کھر اکثر اوقات بھٹو کو متنبہ کرتے تھے کہ رشید پیپلز پارٹی کی متوازی جماعت کے طور پر کسان کمیٹی تشکیل دے رہے تھے جس پر رشید نے متعدد بار وضاحت بھی کی کہ کسان کمیٹی ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک طبقاتی تنظیم تھی جس کے رہنما اور کارکن بیک وقت پیپلز پارٹی اور کسان تحریک کے لئے کام کر رہے تھے مگر بالآخر شیخ رشید کو بھٹو کے اصرار پر کسان کمیٹی کو پیپلز پارٹی میں ضم کرنا پڑا۔
کسان حقوق کے محافظ ہونے کے ناطے، شیخ رشید نے بھٹو پر زور دیا کہ وہ انہیں خوراک، زراعت اور زرعی اصلاحات کی وزارت کا قلمدان سونپیں۔ اس کے برعکس، انہیں وزارت صحت دی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ زمیندار اشرافیہ زرعی اصلاحات سے متعلق ان کے نظریے کی مخالف تھی۔
وزیر صحت کی حیثیت سے شیخ رشید نے مشہور جنرک نیمز اسکیم متعارف کروائی جس میں انہیں ڈاکٹروں اور غیر ملکی ڈرگز کمپنیوں اور ان کے مقامی شراکت داروں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے دباو کے بعد شیخ رشید کی وزارت تبدیل کر کے انہیں فوڈ اینڈ ایگریکلچر، زرعی اصلاحات اور کوآپریٹیو، تعمیرات اور ایویکیوی پراپرٹیز کا قلمدان سونپ دیا گیا۔
زمیندار اشرافیہ نے زرعی اصلاحات کو ناکام بنانے کے لئے بہت سے حربے استعمال کیے۔ مثال کے طور پر انہوں نے لینڈ ریفارمز ایکٹ میں حبہ (تحفہ) کا تحفظ کرنے والی ایک شق کو شامل کروا دیا۔ اس سے انہیں اپنی زمینیں ان لوگوں کو تحفے میں دینے یا منتقل کرنے کی اجازت مل گئی جو یا تو ان کے رشتہ دار تھے یا پھر ان پر منحصر تھے۔ حبہ کے ذریعے سے منتقل کی گئی اراضی کے باضابطہ ریکارڈ کی عدم دستیابی کا فائدہ متعدد زمیندار خاندانوں کو ہوا۔
شیخ رشید نے بحیثیت چیئرمین لینڈ ریفارمز کمیشن دعوی کیا کہ حبہ میں تین عناصر ہیں: پیش کش، قبولیت، اور قبضے میں تبدیلی۔ کچھ خاندانوں، جنہوں نے حبہ کے ذریعے زمین کی منتقلی کا دعوی کیا تھا، نے زمین کی منتقلی کو رجسٹر قبضہ (جسے خسرہ گرواوری کہا جاتا ہے) میں درج نہیں کروایا تھا۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رشید نے زمین پہلے سرکاری قبضہ میں لی اور بعد میں بے زمین کسانوں میں تقسیم کر دی۔
فیڈرل لینڈ کمیشن کے ممبروں کو عدالتی اختیارات دیئے گئے اور انہیں صوبائی لینڈ کمیشن کے ممبروں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں پر نظرثانی کا اختیار دیا گیا۔ اس کے علاوہ، انہیں زمینی اصلاحات کے کسی بھی معاملے کے بارے میں استفسار کرنے اور ان کا جائزہ لینے کا اختیار بھی دیا گیا۔ خلاف ورزیوں سے متعلق اپیلوں اور درخواستوں کا انتظار کرنے کے بجائے، رشید نے سو موٹو لیا اور مقررہ حد سے زائد زمین (زمینداروں سے) حاصل کر لی۔ زرعی اصلاحات کے نفاذ میں ان کے فعال کردار کی وجہ سے، زمیندار اشرافیہ ان کے اس قدر خلاف ہوگیا کہ ان میں سے کچھ نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔