فاروق سلہریا
چند روز پہلے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اینکر پرسنز کے ساتھ جو سات گھنٹے کی ملاقات کی اس میں انہوں نے اشارہ دیا کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو ’پرامن‘ بنا کر مین اسٹریم کیا جائے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹی ایل پی پہلے ہی مین اسٹریم ہو چکی ہے۔ اپنے حالیہ اقدامات کے ذریعے اس نے اصل کامیابی یہ حاصل کی ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں میں سیاست اور سیاسی بیانئے کو مزید رجعتی، رائٹ ونگ اور متشدد بنا دیا ہے۔
مثال کے طور پر ٹی ایل پی سے نام نہاد صلح کے بعد عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ان کے مقاصد اور سعد رضوی کے مقاصد ایک ہی ہیں اور اس تقریر کے دوران عمران خان نے خادم رضوی سے بھی بڑھ کر نعرے بازی کی۔
ادہر قومی اسمبلی کے اجلاس میں سابق وزیر اعظم اور نواز لیگ کے دھیمے مزاج والے رہنما شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر قومی اسمبلی کو جوتا مارنے کی دھمکی دی۔ جوتے برسانے کا جواز دیتے ہوئے عباسی صاحب کا فرمانا تھا کہ ختم نبوت کا مسئلہ ہے۔ معلوم نہیں نواز لیگ کے رہنما احسن اقبال پر گولی چلانے والے کے بارے میں آج کل شاہد خاقان عباسی کا کیا موقف ہے کیونکہ گولی چلانے والے نے بھی عین یہی موقف اختیار کیا تھا۔ اب یہ شرعی مسئلہ تو مریم نواز شریف ہی حل کر سکتی ہیں یا میاں نواز شریف کی صوابدید ہے وہ کہ طے کریں کہ ختم نبوت پر صرف جوتا مارنا جائز ہے یا ایک آدھ گولی بھی چلائی جا سکتی ہے۔
دریں اثنا عمران خان اور شاہد خاقان عباسی کے جواب میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ایک وزیر اعظم کو میدان میں اتارا: سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اہل ایمان کو یاد دلایا کہ پی پی پی سے بڑا مجاہد تو عالم اسلام میں کوئی نہیں۔ راجہ صاحب نے یاد دلایا کہ انہوں نے ڈینش خاکوں کے مسئلے پر یو ٹیوب ہی بند کر دی تھی (جسے نواز شریف کے دور میں کھولا گیا)۔
ڈنمارک میں بنائے جانے والے خاکوں پر مشتعل ہو کر مجاہدین نے لاہور کی مال روڈ اور راولپنڈی اسلام آباد میں کاروباری مراکز، گاڑیوں اور املاک پر جو حملے کئے اس کے نتیجے میں اربوں کا نقصان ہوا تھا۔ معلوم نہیں اس بلوے کے بارے میں راجہ پرویز اشرف کا تازہ موقف کیا ہے۔ اُس وقت تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس بلوے کی مذمت کی تھی۔
قصہ مختصر، ان دو ہفتوں میں سرمایہ دارانہ جماعتوں اور رہنماؤں کی منافقت اپنے عروج پر تھی۔ کسی اصول پر کھڑے ہونے کی بجائے، ووٹ کھو دینے کے ڈر سے، پاکستانی سیاست کی ساری ’اشرافیہ‘خادم رضوی کی زبان بول رہی تھی (شاہد خاقان عباسی نے تو محاورہ بھی خادم رضوی والا اپنا لیا)۔
یہ ہی ٹی ایل پی کی اصل کامیابی ہے۔ ٹی ایل پی آنے والے عرصے میں ہرگز بھی اس قابل نہیں ہو سکے گی کہ اپنے لئے کوئی بڑا ووٹ بینک بنا سکے لیکن ٹی ایل پی کی قیادت یہ بات سمجھ گئی ہے کہ ووٹ بینک طاقت کے کھیل میں صرف ایک عنصر ہے۔
طاقت ہوتی کیا ہے؟
طاقت ہوتی ہے اپنی بات منوانا۔ اپنی مرضی لاگو کرنا۔ اس سے بھی اہم: طاقت کا بہترین اظہار یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی سوچ اور خواہشات اس طرح تشکیل دے دو کہ ڈنڈے، دھرنے اور توڑ پھوڑ کے بغیر ہی معاملات آپ کی مرضی سے چلتے رہیں۔ اگر طاقت کے اس کانسیپٹ (Concept) کو ذہن میں رکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ ٹی ایل پی نے دس سالوں کے اندر اندر کتنی بڑی کامیابی (یا طاقت) حاصل کر لی ہے۔ اس کا آخری خونی دھرنا تو کامیابیوں کا ایک تسلسل ہے جس کے بعد ملک کے تین وزیر اعظم خادم رضوی بنے ہوئے ہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔