لاہور (نامہ نگار) تحریک انصاف کی حکومت کے ’ترجمان‘ اور جمہوری اور سیاسی حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کرنے والوں کو غدار قرار دینے والے پاکستان کے معروف اینکر چوہدری غلام حسین کروڑوں روپے کے فراڈ میں ملوث اور عدالتوں کے اشتہاری نکلے۔
حکومت اور طاقتور اداروں کے حمایت یافتہ ہونے کے باوصف، عدالت کے احکامات کے باوجود، ایف آئی اے نہ صرف گرفتار کرنے سے گریزاں ہے بلکہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کے عدالتی احکامات پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جا سکا ہے۔ یہ انکشافات معروف صحافی اسد علی طور نے گزشتہ روز اپنے ایک ویڈیو لاگ میں کرتے ہوئے پیمرا سمیت دیگر ذمہ داران سے چوہدری غلام حسین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اسد علی طور کی جانب سے منظر عام پرلائے جانے والے دستاویزات کے مطابق چوہدری غلام حسین نے نجی بینک سے جعل سازی کے ذریعے سے 10 کروڑ روپے کا قرضہ لیا، قرض کیلئے ایک مردہ خاتون کی ملکیتی پراپرٹی کو جعلی کاغذات کے ذریعے اپنا ظاہر کر کے بینک میں رہن رکھوایا اور اپنی کمپنیوں کو ڈیفالٹر ظاہر کر کے 10 کروڑ روپے ہڑپ کر گئے۔
چوہدری غلام حسین جو عدالتی اور بینک ریکارڈ کے مطابق کباڑ یا اسکریپ کا کاروبار کرتے ہیں، انہوں نے 3 کمپنیوں کے نام پر ڈیڑھ کروڑ، 6 کروڑ اور اڑھائی کروڑ کا الگ الگ قرضہ لیااور بعد ازاں کمپنیوں کو دیوالیہ ظاہر کر دیا۔ بینکنگ کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ نے انہیں جعل ساز قرار دیا اور جب رہن رکھی گئی پراپرٹی کو بینک کے حوالے کرنے کا عمل شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے پراپرٹی بھی جعل سازی کے ذریعے سے اپنے نام پر ظاہر کر کے قرض حاصل کیا۔
دستاویزات کے مطابق بینکنگ جرائم کورٹ میں یہ مقدمہ پہنچ چکا ہے، ایف آئی اے نے بھی چوہدری غلام حسین اور ان کے بیٹوں کے دائمی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں، بینکنگ جرائم کورٹ کی جانب سے بھی ناقابل ضمانت دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کئے جا چکے ہیں۔ وہ ہر روز نجی ٹی وی چینلوں پر نمودار ہوتے اور تجزیے اور تبصرے کرتے ہیں لیکن کوئی ادارہ انہیں گرفتار نہیں کر سکتا۔ 2 روز قبل ایف آئی اے کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کی رپورٹ جمع کروانی تھی لیکن ایک مرتبہ پھر ایف آئی اے عدالتی احکامات کی تعمیل کی رپورٹ جمع کروانے میں ناکام رہی۔
واضح رہے کہ چوہدری غلام حسین پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی اینکر پرسن سمجھے جاتے ہیں، گزشتہ دنوں آرمی چیف کی جانب سے افطار ڈنر پر مدعو کئے گئے 30 اینکروں اور صحافیوں میں بھی شامل تھے۔ اپوزیشن جماعتوں کو چور، ڈاکو کہنے پر زور رکھنے کے علاوہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت دیگر جمہوری اور سیاسی آزادیوں کے حق میں احتجاج کرنے والوں کو غدار، غیر ملکی ایجنٹ قرار دیتے بھی نہیں تھکتے ہیں۔
دوسری طرف الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پیمرا کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں، ملزمان اور اشتہاریوں کی خبروں اور بیانات کی اشاعت پر پابندی کے علاوہ بے شمار ایسے احکامات جاری کئے گئے ہیں جن کے تحت میڈیا کو رپورٹنگ میں احتیاط یا سنسرشپ پر مجبور کیا گیا ہے لیکن ایک طاقتور اداروں اور حکومت کا حمایتی ہونے کی وجہ سے کئی عدالتوں کا اشتہاری ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر تجزیے کرنے میں آزاد ہے۔
صحافی اسد علی طور نے بھی وی لاگ میں ذمہ داران سے مطالبہ کیا کہ وہ نوٹس لیں اور ٹی وی چینلوں کے ذمہ داران بھی ایسی شخصیات کو اینکر اور تجزیہ کار بنانے سے گریز کی پالیسی اپنائیں۔