خبریں/تبصرے

آئی ایم ایف کے احکامات: بجلی کے نرخوں میں 3 روپے فی یونٹ سے زائد اضافے کی منصوبہ بندی

لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کی وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ اورعوامی ٹیکس کی رقم سے بجلی کے شعبے میں فنڈز کی منتقلی کے علاوہ صارفین پر دسمبر سے قبل دو مرتبہ اضافہ کرتے ہوئے مجموعی طور پر 3 روپے فی یونٹ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔

انگریزی جریدے ڈان کے مطابق سرکاری عہدیداروں کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ حجم اور شیڈول کے مطابق محصولات میں اضافے اور سبسڈی کی ادائیگیوں کی فراہمی کا فیصلہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی بدھ کو کریگی اور اس ضمن میں فیصلوں کوایک ماہ کے اندر حتمی شکل دی جائیگی۔

پاور ڈویژن اور قرضہ دینے والی ایجنسیوں کی جانب سے تیار کردہ دستاویزات کے مطابق آنے والے 6 ماہ کے اندر کے الیکٹرک سمیت تمام بجلی کی کمپنیوں کیلئے بجلی کے اوسط نرخ پر 3 روپے فی یونٹ سے زیادہ اضافہ کیا جائے گا۔

کچھ عہدیداروں نے بتایا کہ یکم جولائی سے شروع ہونیوالی پہلی سہ ماہی میں تقریباً 1.51 روپے فی یونٹ ٹیرف میں اضافے کیلئے نوٹیفکیشن جاری کئے جائیں گے۔ تاہم دوسرے ذرائع نے بتایا کہ محصول کی شرح میں اضافہ پہلی سہ ماہی میں زیادہ اور دوسری میں کم ہو سکتا ہے۔

ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ کسی بھی صورت ان دو ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے تقریباً 220 ارب روپے کی رقم اکٹھی کی جائیگی۔

وفاقی محصول سے تقریباً 130 ارب روپے کے اضافی فنڈز ہائیر سبسڈی کی صورت میں منتقل کئے جائیں گے جو 2020-21ء کے بجٹ کے مطابق تقریباً 145 ارب روپے مقرر کئے گئے تھے۔ سبسڈی کی رقم صرف انڈر بجٹ ہی نہیں بلکہ وزارت خزانہ کے ذریعے وقت پر فراہم بھی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے بجلی کمپنیوں کیلئے کیش فلو کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور آخر کار سرکلر قرضوں میں اضافے کے باعث بنتے ہیں۔

ایک عہدیدار کے مطابق یہ صارفین کیلئے دوہرے خطرے کی کلاسیکی مثال ہے جن کو بجلی کے بلات کی زیادہ سے زیادہ قیمت اداکرنی پڑے گی اور ساتھ ہی عوامی فنڈز میں تبدیلی کی وجہ سے بھی نقصان اٹھانا پڑے گا، جو کچھ پیداواری مقاصد کیلئے استعمال ہو سکتے تھے۔

عوام پر ڈالے جانیوالے اس تمام تر بوجھ کے باوجود بجلی کے شعبے کے نقصانات کو 17 فیصد سے کم کر کے 15.5 فیصد ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کمی کیلئے بھی بجلی کے بلات کی وصولی کو 96 فیصد تک بڑھانا پڑے گا، جو اس وقت 90 فیصد تک ہے۔

حکومت کے تازہ اقدامات سے 2023ء تک بجلی کے شعبہ کے نقصانات میں سالانہ تقریباً 1150 ارب روپے کی کمی واقع ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسی مدت کے دوران صارفین پر ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے تقریباً 440 ارب روپے کا اضافہ بوجھ ڈالا جائیگا۔

دوسری طرف گردشی قرضے ان 2 سالوں میں 2300 ارب روپے سے بڑھ کر تقریباً 3 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر جائیں گے۔ پاور ڈویژن نے اطلاع دی ہے کہ گردشی قرضوں میں مالی سال 2019-20ء میں 538 ارب روپے کا اضافہ ہوا، رواں مالی سال کے دوران گردشی قرضوں میں 436 ارب روپے کا اضافہ ہونے کا امکان ہے، مالی سال 2021-22ء میں گردشی قرضوں میں 880 ارب روپے جبکہ 2022-23ء کے دوران 1.26 ٹریلین روپے تک اضافے کا امکان ہے۔

980 ارب روپے کے پرانے قرضوں کو آہستہ آہستہ عوامی قرض میں تبدیل کر دیا جائے گا، اگلے 2 سالوں میں 300 ارب روپے کے سٹاک قرضوں کو عوامی قرض میں تبدیل کیا جائیگا۔ گزشتہ مالی سال میں پرانے سٹاک قرض کی فنانسنگ کیلئے 43 پیسے فی یونٹ اضافے کے ذریعے 125 ارب روپے کی ادائیگی صارفین کی جیبوں سے نکال کر کی گئی تھی۔

سرکاری شعبے کے بجلی گھروں، واپڈا اور چینکوس وغیرہ کے منافع کی شرح میں کمی سے مالی سال 2022ء میں تقریباً 55 ارب روپے اور مالی سال 2023ء میں تقریباً 65 ارب روپے گردشی قرضوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts