خبریں/تبصرے

اسد علی طور پر حملے کیخلاف ملک بھر میں احتجاج: ’نیا پاکستان‘ صحافیوں پر بھاری

لاہور (جدوجہد رپورٹ) معروف صحافی اسد علی طور پر حملے کے خلاف بدھ کے روز صحافیوں نے احتجاج کیا۔ نیشنل پریس کلب اسلام آبادکے سامنے پی ایف یو جے کے زیر اہتمام منعقدہ احتجاجی مظاہرے میں درجنوں صحافی شریک تھے۔ مظاہرین نے صحافیوں پر حملے کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا اور اسد علی طور پر حملہ تمام صحافیوں پر حملہ قرار دیا۔

اسد علی طور کو منگل کی شب اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں واقع ان کے فلیٹ میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اسد علی طور کے بیان کے مطابق 3 نامعلوم نقاب پوش افراد ان کے فلیٹ میں آئے، انہیں اپنے بیڈ روم میں گھسیٹ کر لے گئے اور وہاں باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تینوں افراد مسلح نے پستول کے بٹ مار کر تشدد کا نشانہ بنایا۔

اسد علی طور کے مطابق ان سے انکی آمدنی اور مالی اعانت کے ذرائع پر پوچھ گچھ کی گئی اور پاکستان، فوج اور خفیہ ایجنسی کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مشرقی ہمسایہ ملک بھارت، شمال مغربی ہمسایہ ملک افغانستان اور اسرائیل کی بھی مذمت کرنے پر مجبور کیا گیا۔

الجزیرہ پر شائع ہونیو الے اسد علی طور کے بیان کے مطابق حملہ آوروں نے اپنی شناخت ایک خفیہ ادارے کے ارکان کے طورپر کروائی، تاہم آئی ایس پی آر کی جانب سے اس الزام پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

بی بی سی کے اعظم خان کے مطابق اسد علی طور کا کہنا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے افراد نے انھیں ٹھوکریں ماریں اور ان سے زبردستی ’پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوائے۔‘

اسد علی طور کے فلیٹ کے سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسد طور پر حملے کرنے والے تینوں افراد چہرے پر ماسک پہنے ہوئے تھے اور انھیں زود و کوب کرنے کے بعد باآسانی فرار ہو گئے۔

صحافی برادری کے علاوہ سیاسی شخصیات، انسانی حقوق کے کارکنوں، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی جانب سے بھی اسد علی طور پر کیے جانے والے حملے کی مذمت کی گئی ہے اور فوری طور پر حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرنے کے علاوہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

اسد علی طور اپنی عدالتی رپورٹنگ اور حکومت اور ریاستی اداروں پر تنقیدی یو ٹیوب پر ویڈیو بلاگز کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

گذشتہ برس اسد طور پر راولپنڈی کی پولیس نے سوشل میڈیا پر پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے، پوسٹس اور تبصرہ کرنے کے الزام میں مقدمہ بھی درج کیا تھا۔

یاد رہے کہ یہ اسلام آباد میں حکومت کے ناقدصحافیوں پر حملے کا حال ہی میں دوسرا واقعہ ہے۔ چند ہفتے قبل سینئر صحافی ابصار عالم کو بھی پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے فائرنگ کر کے زخمی کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے رواں ماہ کے آغاز میں صحافیوں کے تحفظ کا بل بھی منظور کیا ہے۔

دوسری طرف رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق پاکستان 180 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر ہے۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 1992ء سے اب تک پاکستان میں کم از کم 61 صحافی ٹارگٹ حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے دور میں دھمکیوں، اغوا، تشدد اور سنسرشپ میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کے ذریعے پاکستان میں میڈیا کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

صحافیوں اور ایڈیٹرز نے الجزیرہ کو بتایا کہ انہیں حکومت اور سیاست میں فوج کے بڑھتے ہوئے کردار سمیت کچھ خاص موضوعات پہ بات کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts