قیصر عباس
اگرچہ عالمی خبروں میں ابھی تک غزہ میں الجزیرہ ٹی وی اور خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے دفاتر پر اسرائیلی بمباری کی اطلاعات ہیں لیکن صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق کئی فلسطینی ذرائع ابلاغ ا ور صحافیوں پر بھی ہولناک حملوں کی خبر ہے۔
ادارے نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ اب تک اٹھارہ صحافتی اداروں پر حملے کئے گئے ہیں جس کے نتیجے میں ایک مقامی صحافی ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے ہیں جو ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ سی پی جے کے ایگزیٹو ڈائریکٹر جیول سیمون نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”صحافیوں پر اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران حملے کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان حملوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔“
غزہ پر اسرائیلی فوج کے حملوں میں بین الاقوامی اور مقامی میڈیا کے مراکز پر بمباری کے علاوہ فلسطینی صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق فلسطینی صحافی فیصل ابوحسین کو ان کے گھر پر بمباری کر کے ہلاک کیا گیا اور خیال ہے کہ انہیں خصوصی طور پر نشانہ بنا یاگیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ہوائی جہازوں نے ”نوا آن لائن ویمن میڈیا نیٹ ورک“ (Nawa Online Women Media Network) کے دفتر پر بھی بمباری کر کے اسے تباہ کر دیا ہے۔ یہاں نوجوانوں کی تنظیم ”فلسطینیت“ کے زیر اہتمام عورتوں کے حقوق کی ایک ویب سائٹ کا مرکز کام کر رہا تھا۔ ویب سائٹ کے مدیر وفا عبدالرحمان نے بتایا ہے کہ عمارت کو سخت نقصان پہنچاہے اور ادارے کے ملازمین اپنے دفاتر نہیں جا سکے۔
ادھر مشرقی یروشلم میں ”مڈل ایسٹ آئی“ (Middle East Eye) کی صحافی لطیفہ عبدالطیف پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ ایک مقامی شہری کی گرفتاری کی ویڈیو بنا رہی تھیں۔ اسرائیل کی سکیورٹی فورس کے ارکان نے ان پر بغیر کسی وجہ کے حملہ کر کے انہیں زخمی کیا جس کی ویڈیو بھی بعد میں ادارے کی ویب سائٹ پر دکھائی گئی۔
ان واقعات کے علاوہ دو اور مختلف حملوں میں فتح سے منسلک ”الشباب ریڈیو“ کے نمائندے محمد الوہ اور الجزیرہ ٹی وی کے رپورٹر الیاس کرم بھی زخمی ہوئے ہیں۔ محمد نے بتایا کہ ایک تباہ شدہ گھر کی رپورٹنگ کے دوران ان پر ایک فضائی حملہ کیاگیا جس میں وہ سخت زخمی ہو گئے اور اب غزہ کے الشفا ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”حملے سے پہلے کوئی وارننگ نہیں دی گئی۔“
غزہ میں ایک اپارٹمنٹ کی عمارت پر بمباری کر کے اسے تباہ کر دیا گیا جس میں میڈیا پروڈکشن اور ایڈورٹائزنگ کی ایک کمپنی ”المشارق“ کا دفتر قائم تھا۔ ادارے کے ایک ڈائریکٹر ابو حمیدکے مطابق اس حملے کی پیشگی وارننگ نہیں دی گئی تھی اور ”حملے کے بعد نہ صرف تمام ملازمین بے روز گار ہو گئے ہیں بلکہ ادارے کا سامان، کمپیوٹر اور دفاتر پوری طرح تباہ ہو چکے ہیں۔“
سی پی جے کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے نمائندے مگوئیل ڈلگیڈو نے ان اسرائیلی حملوں پر احتجاج کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے ان حملوں کا اس کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں ہو سکتا کہ غزہ میں عام لوگوں کی مشکلات اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی میڈیا رپورٹنگ پر پردہ ڈالاجا سکے۔
مبصرین کاخیال بھی یہی ہے کہ کشیدگی کے دوران اسرائیل کے جدید ترین طیاروں اور ٹینکوں کے ذریعے نہ صرف غزہ کے نہتے شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور عام لوگ زخمی ہوئے بلکہ ایک حکمت عملی کے تحت مقامی صحافیوں اور میڈیا کے دفاتر کوبھی تباہ کیا گیا تاکہ ان حملوں کی رپورٹنگ پر پابندی لگائی جا سکے۔
حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ امریکہ اور بین الاقوامی میڈیا نے الجزیرہ اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے علاوہ مقامی ذرائع ابلاغ پر حملوں کی خبریں نہیں دیں جن میں فلسطین کے صحافیوں کو نشانہ بنا کر زخمی اور ہلاک کیا گیا۔ ان اداروں کے بیشتر دفاتر بھی تباہ کر دئے گئے ہیں۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔