سوچ بچار

عالم بالا سے اسامہ کا شاہ محمود قریشی کو خط

فاروق سلہریا

السام علیکم یا شیخ ال ملتان۔

مشرک افغان چینل ’طلوع‘ کے ساتھ آپ کا انٹرویو سنا۔ یہ انٹرویو عین اس وقت نشر ہوا جب یہاں فرشتے حساب کتاب کے سلسلے میں میرا انٹرویو کرنے والے تھے۔

آپ کے انٹرویو کی وجہ سے میرا حساب کتاب پھر تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔ فرشتوں کی ایک ٹیم پھر تحقیقات کے لئے پاکستان جا رہی ہے تا کہ پتہ کیا جا سکے کہ میں شہید ہوں یا نہیں۔

یا حبیبی! پہلے ہی آپ پاکستانیوں کی وجہ سے دس سال تک میرا حساب کتاب رکا ہوا تھا۔ فرشتے مجھے اسامہ بن لادن ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب الباکستانی چینل یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایبٹ آباد میں تمہارا ہم شکل مارا گیا ہے،تم وہاں تھے ہی نہیں۔

یا پیر ِصندوق (ہم عربی میں ڈبے کو صندوق کہتے ہیں) مجھے امریکی گولیاں کھا کر اتنی بے غیرتی محسوس نہیں ہوئی جتنی اس بات پر ہوئی کہ مجھے میرا ہم شکل بنا دیا گیا۔ یا ظالمین و الکاذبین! ایبٹ آباد کے اس گھر میں ہی تو میں مزید چار بچوں کا باپ اور ایک نئی بیوی کا شوہر بنا۔ آپ کے میڈیا نے جو خبر چلائی اس نے میرے خاندان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہم عرب لوگ غیرت کے نام پر جان دے دیتے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ میں اس خبر سے پہلے ہی جان دے چکا تھا۔ میرے وہ چاروں بچے اب بڑے ہو چکے ہیں اور اپنی اپنی ماوں سے عجیب و غریب سوال کرتے ہیں۔

اوپر سے تم لوگوں نے جو ایبٹ آباد کمیشن بنایا اس کی تحقیقات بھی خفیہ رکھیں۔ فرشتوں کو بھی پتہ نہیں چلا۔ یا حبیبی! یہاں مقیم ایک پیرِصندوق، اسمہ پیر پگاڑہ، کا کہنا ہے کہ الباکستان میں فرشتے ووٹ تو ڈال سکتے ہیں مگر عدالتی کمیشن کی رپورٹ تک نہیں پہنچ سکتے۔

وہ تو بھلا ہو سابق امریکی صدر بش سینئر کی موت ہو گئی۔ سی آئی اے کے دو چار پرانے دائریکتربھی عالم بالا میں پہنچ گئے۔ انہوں نے گواہی دی کہ میں ہی اصل اسامہ ہوں جسے انہوں نے 1980ء کی دہائی میں ترینگ بھی دی اور میڈیا میں ہیرو بھی بنایا۔

یا حبیبی! امریکیوں کی گواہی کے بعد میں نے دل میں سوچا کہ دنیا و آخرت میں امریکی ہی سعودی عرب والوں کے کام آتے ہیں۔

جب یہ ثابت ہو گیا کہ میں ہی اسامہ ہوں تو خوش قسمتی سے پاکستان کے سلطان ِ اعظم شیخ العمران خان نے بھی مجھے شہید قرار دے دیا۔ میں نے وہ ویڈیو کلپ منگوا کر اپنی فائل میں لگوا دیا اور متعلقہ فرشتوں کو بھی واٹس اپ کرا دیا۔ مجھے یقین تھا اب میری کلیئرنس ہو جائے گی۔

اسی دوران آپ نے ’طلوع‘ کو انٹرویو دے دیا۔ فرشتوں نے جوابی طور پر مجھے آپ کے انٹرویو کا کلپ بھیج دیا جس میں نہ صرف آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ شیخ الباکستان العمران خان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا بلکہ آپ کے وزیر اطلاعیہ و نشریہ نے تو یہ اعلان کر دیا کہ مجھے شہید قرار دینا سلب آف تانگ تھا۔

یا اخی! دس سال گزر گئے ہیں۔ اب طے کر لو کہ میں دہشت گرد تھا کہ شہید۔

یا اخی! ایک ذاتی سا سوال بھی پوچھنا چاہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے جب ایبٹ آباد میں آپریشن ہوا تھا، ان دنوں بھی آپ دولت الباکستان کے وزیر خارجیہ تھے۔ دس سال بعد بھی آپ وزیر خارجیہ ہو۔ ہمارے سعودی عرب میں تو سلطان بھی دس سال نہیں نکال پاتا۔ سچ پوچھو تو اتنے سال الباکستان کی مہمان نوازی کے باوجود مجھے الباکستانی سیاست، معیشت اور بالیسی خارجیہ کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔

فی امان اللہ۔

اخوی۔
اسامہ بن لادن

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔