حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں مخصوص نشستوں کے انتخابات کا مرحلہ بھی مکمل ہو گیا ہے۔ خواتین کی 5 نشستوں میں سے 3 نشستیں تحریک انصاف جبکہ ایک ایک نشست مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے حصے میں آئیں۔ علما مشائخ، ٹیکنوکریٹ اور اوورسیز کشمیریوں کی نشستوں پر تحریک انصاف کے تینوں امیدوار 27، 27 ووٹ لیکر کامیاب ہو گئے ہیں۔
علما مشائخ کی نشست پر آل جموں و کشمیر جمعیت علما اسلام کے رہنما اور سابق ’جہادی کمانڈر‘ مظہر سعید شاہ کامیاب ہوئے ہیں۔ مظہر سعید شاہ ماضی میں عبداللہ شاہ مظہر کے نام سے اہم ’جہادی‘ رہنماؤں میں شمار ہوتے رہے ہیں۔ انکی بطور امیدوار نامزدگی پر نہ صرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے سخت تنقید کی بلکہ خود تحریک انصاف کے علما مشائخ ونگ کے ذمہ داران نے بھی سخت احتجاج کیا ہے۔
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے بھی مظہر سعید شاہ کی بطور امیدوار نامزدگی پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ 30 جولائی کو انہوں نے اس معاملے پر 2 ٹویٹس کیں۔
انکا کہنا تھا کہ ”کالعدم حرکتہ المجاہدین سے ’جہادی‘ سفر شروع کرنے والے مظہر سعید شاہ بعد ازاں ’مولانا مسعود اظہر‘ کی تنظیم ’کالعدم جیش محمد‘ کے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ مظہر سعید شاہ پر اشتعال انگیز تقاریر کی وجہ سے مختلف علاقوں میں پابندیاں بھی عائد کی جاتی رہی ہیں۔“
ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ”میں چیئرمین سے اپیل کرتا ہوں کہ آزاد جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں ’علما مشائخ‘ کی نشست پر طالبان دو رمیں فائز رہنے والے کمانڈر کو تحریک انصاف کا ٹکٹ نہ دیجیے، مظہر سعید شاہ المعروف عبداللہ شاہ مظہر، فضل الرحمن سے وابستہ اور اشتعال انگیز تقاریر کے ماسٹر ہیں۔“
دوسری طرف مظہر سعید شاہ نے گزشتہ روز کشمیری صحافیوں سے ایک ملاقات کرتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی اور کسی بھی ’جہادی‘ تنظیم سے تعلق کی بھی تردید کی۔
تاہم صحافیوں کی جانب سے جب ان سے ’جیش محمد‘ اور ’حرکتہ المجاہدین‘ سے تعلق بارے سوال کیا گیا تو انکا محض یہ کہنا تھا کہ اب ان کا ’جیش محمد‘سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے افغانستان میں کسی صوبے کے اقتدار یا کسی ذمہ داری کی بھی تردید کی اور کہا کہ وہ افغانستان میں محض 4 ماہ رہے تھے۔
یاد رہے کہ ’گلف نیوز‘ میں 14 اکتوبر 2001ء شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جیش محمد کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کئے جانے کے ایک دن بعد اس تنظیم کا نام ’تحریک الفرقان‘ رکھ دیا گیا اور تحریک الفرقان کے سربراہ عبداللہ شاہ مظہر سمیت ایک ہفتے کے دوران 4 شدت پسند رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ عبداللہ شاہ مظہر گرفتار رہنماؤں میں وہ واحد ہیں جن کے فہرست میں شامل دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ براہ راست روابط ہیں۔ رپورٹ میں انکی گرفتاری کی وجہ کراچی میں 20 ہزار سے زائد افراد پر مشتمل ریلی کی قیادت کرنے اور طالبان کے خلاف امریکی حملوں کے خلاف احتجاج کرنے اور ریلی میں اسلحہ کی نمائش کو قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سرعام اسلحہ لہرا کر احتجاجی جلوس نکالنے والے عبداللہ شاہ مظہر کی گرفتاری کے خلاف بھی احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی طرف سے 2008ء میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ میں بھی عبداللہ شاہ مظہر کا بطور رہنما جیش محمد سندھ ذکر کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مظہر سعید شاہ کو بطور امیدوار نامزد کئے جانے کے بعد ملکی اور عالمی سطح پر تحریک انصاف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ تاہم تحریک انصاف کی جانب سے اس بابت کوئی بھی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ علما مشائخ ونگ کے ایک عہدیدار نے ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے اس فیصلہ کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جبکہ حال ہی میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والے سابق ممبر قانون ساز اسمبلی پیر علی رضا بخاری بھی اس نامزدگی کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلانے میں بھرپور سرگرم ہیں۔