حارث قدیر
تبلیغی جماعت کے معروف رہنما مولانا طارق جمیل نے برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انسانوں کو ماورائے عدالت اغوا کئے جانے اور لاپتہ کئے جانے کے عمل کی مذمت کرنے سے ایک مرتبہ پھر انکار کرتے ہوئے کہا کہ ”تبلیغی جماعت کا اصول ہے کہ ہم مذمت نہیں کرتے، مثبت بات کرتے ہیں، منفی بات نہیں کرتے، اچھائی بیان کرتے ہیں، اچھائی کو اتنا بیان کریں کہ برائی دب جائے۔“
دوسرے لفظوں میں انکے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چاہے ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے جائیں لیکن اسے ظلم نہ کہا جائے بلکہ اچھے گمان رکھے جائیں اور اچھا اچھا سوچا جائے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جس گھر سے جوان بیٹا لاپتہ ہو جائے، اغوا کر دیا جائے، جس گھر کا واحد کفیل غائب کر دیا جائے، اس گھر میں کیا اچھا سوچا جا سکتا ہے، وہ ماں اپنے لاپتہ بیٹے کے بارے میں کیسے کچھ اچھا سوچ سکتی ہے؟
مولانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ عوام کی رائے کو روندھنا ان کیلئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک اللہ سے دوری ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے، اسی وجہ سے بندوں کا حق نہیں دیا جاتا، جب اللہ سے تعلق جوڑ لیا جائے گا تو ایسا نہیں ہو گا۔
یہاں بھی تضاد ہے، اگر اللہ سے دوری کی وجہ سے ہی یہ سب مسئلہ ہے تو جو شخصیات اللہ سے دوری کی وجہ سے انسانوں کا حق چھین رہی ہیں مولانا تو انہی کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں۔
اسی انٹرویو میں مولانا نے وزیراعظم عمران خان کی حمایت سے متعلق طویل تاویلیں بیان کیں۔ عمران خان اس ملک کی جدید تاریخ میں عوامی رائے کو روند کر اقتدار حاصل کرنے والی سب سے بڑی مثال ہیں۔ ایک طرف مولانا انہیں دین کا سب سے بڑا محافظ بنا کر پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ خود کہہ رہے ہیں کہ عوام سے انکا حق چھیننے والے اصل میں اللہ سے دوری اختیار کئے ہوئے ہیں جس وجہ سے وہ ایسا کر رہے ہیں۔ اللہ کے قرب میں آجائیں گے تو ایسانہیں کرینگے، لیکن عمران خان سے متعلق انکی رائے کچھ اور ہے۔
درحقیقت مولانا غریب کیلئے کچھ اور رائے رکھتے ہیں، طاقتور اور حکمران کیلئے وہ کچھ اور رائے رکھتے ہیں۔ حکمران طبقات ہمیشہ مذہب کو استعمال کرتے ہوئے محنت کش طبقہ کے شعور کو کند کرنے اور انہیں تقسیم رکھتے ہوئے اپنے اقتدار کو جاری رکھنے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اور مولانا طارق جمیل جیسے مذہبی پیشواؤں کو اس مقصد کیلئے استعمال کئے جانے کی ایک تاریخ موجود ہے۔ موجودہ وقت بھی اس بحران زدہ نظام کے تسلط کو جاری رکھنے کیلئے مولانا طارق جمیل جیسی شخصیات کو استعمال کیا جا رہا ہے۔