لاہور (جدوجہد رپورٹ) ہم اپنے معزز صحافیوں دوستوں اور احباب کو پریس کانفرنس میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ آج کی پریس کانفرنس کامقصد ایک اہم مسئلے کی طرف آپ کی توجہ کو مبذول کروانا ہے۔ پاکستان میں ٹیکسوں چھوٹ کی مد میں صرف امیر لوگوں کو ہی فائدہ پہنچایا جارہا ہے جبکہ غریب پاکستانی ان سہولتوں سے بالکل محروم ہے۔ امیر لوگ پہلے تو ٹیکس ہی نہیں دیتے پھر قانوناً چارہ جوئی، سیاسی اثرورسوخ استعمال کر کے اور گورنمنٹ کی وقتاً فوقتاً ٹیکس معافی کی سکیموں سے بار بار فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ جس کی عمدہ مثال اس سال فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 81شوگرملز سے 469بلین روپے ٹیکس کی طلبی کی؛ جس میں 7بلین روپے جہانگیر ترین کی شوگر ملوں کی طرف واجب الادا ہیں۔ یہ تمام معاملہ ابھی تک سرد خانے میں ہے۔ 2019ء میں مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے ہیرا پھیری اور لوٹ کھسوٹ کے الزامات کے تحت ان 81ملوں پر 44بلین روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
مختلف شعبہ جات جس میں کھاد، پاور، انڈسٹری، پاور پلانٹس، کے الیکٹرک کراچی کمپنی، جنرل انڈسٹری، گیس کمپنیوں نے1523 ارب روپے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کو ادا کرنے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فوری ادائیگی کے فیصلہ کے بعد کمپنیاں فوری ادائیگی کی بجائے اس کے خلاف ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگتی رہیں تاکہ عدالتوں اور حکومت پر دباؤ ڈالا جاسکے کہ اس رقم کو ختم کیاجائے۔ حکومت اس رقم میں سے 300ارب روپے معاف کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح تحریک انصاف حکومت نے صنعت کاروں اورکمپنیوں کو تقریباً آدھی رقم ختم کردی۔ ان صنعت کاروں اورکمپنیوں کا زیادہ ترتعلق کراچی سے تھا۔ یہ رقم1971ء سے لیکر 2019ء تک تمام سرمایہ داروں اور کمپنیوں کو معاف کی جانے والی رقم سے بھی زیادہ ہے۔
پاکستان کی طرح عالمی سطح پر بھی ہونے والا ”امیروں کے لیے معاہدہ“ جس پرG-7 کے ممالک نے یکم جولائی 2021ء کو دستخط کئے ہیں، وہ ترقی پذیر ممالک کے حق میں نہیں ہے۔ گلوبل سطح پر ٹیکس کے نئے قوانین کی تجاویز عالمی سطح پر ٹیکس کے ڈھانچے کے موجودہ مسائل کو حل نہیں کرتی۔ یہ G7 ممالک کے طے شدہ معاہدہ، جس کے تحت ملٹی نیشنل کمپنیوں پر زیادہ سے ز یادہ15فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجاویز، امیروں کے ساتھ ڈیل کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ ان تجاویز اور خدشات کی نفی کرتاہے جو ترقی پذیر ممالک نے کئی سالوں کے کام کے بعد پیش کی تھیں۔
گلوبل الائنس فار ٹیکس جسٹس اور منصفانہ ٹیکسوں کے لیے چلائی جانے والی دوسری تحریکیں آرگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (OECD) کے راہنمائی میں ہونے والی ان فیصلوں پر شدید تنقیدی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔OECD امیروں کا عالمی سطح پر ٹیکس قوانین بنانے والوں کا ایک کلب ہے۔ جس کی قیادت میں G7 امیروں کے ساتھ ٹیکس ڈیل کر کے ان کوفائدہ پہنچاتا ہے۔
کووڈ19 کی عالمی وبا اور اس کے اثرات نے ہمیں ایک تاریخی موقع فراہم کیاتھا، جس سے ہم عالمی سطح پر کارپوریٹ ٹیکس اور ہمارے ٹیکس سسٹم کو عوام کے حق میں ترتیب دے سکتے تھے۔ دنیا کے امیر ملکوں کی طرف سے پیش کیا گیا حل عالمی سطح پر ٹیکس کے نظام میں صرف عدم مساوات کو فروغ دیتا ہے۔ اس میں سے ترقی پذیر ملکوں اور گلوبل ساؤتھ کے عوام کی آوازکو مکمل طورپر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ جو عالمی سطح پر 150 فیصد ٹیکس لگانے کی جو تجویز دی گئی ہے۔ یہ ترقی پذیر ممالک کارپوریٹ سیکٹر پر لگائے جانے والے اوسط 25 فیصد ٹیکس سے کہیں کم ہے۔
پاکستان کی مثال اس سے بھی بدتر ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صنعت کاروں، ایلیٹ کلاس، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیرداروں اور امیر سیاست دانوں و ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اب تک تقریباً2958ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی جاچکی ہے جوکہ ملکی معیشت کا تقریباً 6فیصد ہے۔
ریاست کی جانب سے ٹیکسوں کی چھوٹ، سستا خام مال، تیار شدہ مال کی زیادہ قیمتیں اور قرضہ جات کے لیے ان کو دی جانے والی ترجیحات سے فائدہ اٹھانے والا کارپوریٹ سیکٹر ہے۔ جس کو اب تک اندازہ 799ارب روپے کا فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ پاکستان کے ایک فیصد امیرترین افراد کے ملک کی کل آمدن میں سے 9فیصد کے مالک ہیں۔ 1.1فیصد جاگیردار طبقہ قابل کاشت زمین کے 22فیصد حصے کا مالک ہے۔ ملک کے ایک فیصد امیرترین افراد 5348ارب روپے کے مالک ہیں جبکہ غریب ترین ایک فیصد کے پاس اس رقم کا 0.15فیصد ہے۔ مجموعی طورپر امیرترین 20فیصد پاکستانی قومی آمدن کے 49.6 فیصد پر قابض ہیں۔ جبکہ غریب ترین 20فیصد کے پاس صرف 7فیصد آمدنی ہے۔ امیروں پر ٹیکس لگانے کی بجائے موجودہ حکومت امیروں کو ٹیکس چھوٹ دینے کو ہمیشہ تیار رہتی ہے۔
حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اگر آپ اپنی کالے دھن کوسفید کرنا چاہتے ہیں تو اسے عمران خان کی ہاؤسنگ سکیم میں انوسٹ کردیں۔ مارچ2020 سے موجودہ حکومت ناجائز آمدن کوتعمیراتی شعبہ میں انوسٹ کرنے کی مسلسل حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ تعمیراتی شعبہ صرف وقتی طورپر کچھ ملازمتوں کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ چونکہ اس شعبہ میں ٹھیکیداری نظام ہے، جس سے مستقل ملازمت کے مواقع بڑھنے کا کوئی امکان نہیں۔ عالمی سطح پر سیاسی طرف داری پر مبنی امیروں کے لیے معاہدہ اقوا م متحدہ کے دائرہ کار سے باہر کیا گیا ہے۔ جو عالمی سطح پر آئینی اور قانونی نہیں کہلاسکتا۔ ایک منصفانہ عالمی معاہدہ مکمل طورپر شفافیت اور حکومتوں کے درمیان گفت و شنید کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جس میں سول سوسائٹی اور عوام معاہدہ کرنے والوں کا احتساب کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں اور جس کا ڈرافٹ پبلک کے علم میں ہو۔ ایسا معاہدہ صرف اقوام متحدہ کے فریم ورک میں ہی ممکن ہے جس میں تمام ممالک برابری کی سطح پر شامل ہوسکیں۔
ہم اس مطالبہ کو ایک بار پھر دہراتے ہیں کہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ایک ٹیکس کمیشن کی تشکیل دی جائے جوکہ اقوام متحدہ کے ٹیکس کنونشن کی روشنی میں مکمل طورپر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس بچانے کے تمام ناجائز ہتھکنڈوں اور ناجائز اقتصادی لین دین کی روک تھام کرسکے۔ ہم تمام ممالک کویہ کہتے ہیں کہ عالمی ٹیکس قوانین کی اصلاحات کے راستے میں موجود تمام رکاوٹوں کو ختم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی شفاف انداز میں بات چیت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ امیروں پر ٹیکس لگایا جائے اور غریبوں کو ٹیکس نیٹ ورک سے مستثنا قرار دیا جائے۔ پاکستان میں جوٹیکس چھوٹ شوگر مافیا اور دیگر کودی گئی ہے، اسے واپس لیا جائے، امیروں کے ذمہ جو ٹیکس واجب الادا ہے وہ فوری وصول کیاجائے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والے:
فاروق طارق، ناصر اقبال، صائمہ ضیاء، رفعت مقصود، نازلی جاوید اور پروفیسر ضیغم عباس