اقبال احمد
بارہمولہ قصبے کے نزدیک فوجی چھاؤنی کے باہر ایک سنجیدہ، سرگوش نوجوان کا پوسٹر لٹکا ہوا ہے۔ ”شہید مقبول شیروانی“، کو پوسٹر پر چھپی تحریر کے مطابق 7 نومبر 1947ء کو 19 برس کی عمر میں، شمال مغربی سرحدی صوبے کے قبائلی حملہ آوروں نے مار دیا جو کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پہلی سرحدی جنگ تھی۔ پاکستانی پشت پناہی والے قبائلی حملہ آوروں کی جانب سے مہاراجہ ہری سنگھ کی آزاد ریاست پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش ”آپریشن گلمرگ“ کی تاریخی ناکامی کی وجہ کو نیشنل کانفرنس (این سی) کے کارکن مقبول شیروانی سے منسوب کیا جاتا ہے جو حملہ آوروں کے ہاتھوں غداری کے جرم میں پکڑا گیا او ر 7 نومبر 1947ء کو بارہمولہ میں اس بہادر اور نڈر نوجوان کو سولی پر چڑھایا گیا۔
عجیب اتفاق ہے کہ 7 نومبر، شیروانی کی شہادت کا دن، وادی میں حملہ آوروں کا آخری دن ثابت ہوا کیونکہ ان میں سے سینکڑوں بھارتی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور ہزاروں لوگ ان کے راستے میں قتل اور لوٹ مار کرتے ہوئے واپس بھاگ گئے تھے۔
کچھ تاریخی شواہد موجود ہیں جن سے واضح طور پر یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ شیروانی نے حملہ آوروں کو کس طرح گمراہ کیا۔ لیکن پچھلی سات دہائیوں کے دوران جتنے منہ اتنی باتیں لیکن کشمیر میں ہر ایک فرد کا خیال ہے کہ شیروانی نے ہی چھاپہ ماروں کو زبردست دھچکا پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شیروانی نے حملہ آوروں کو گمراہ کیا، 23 اکتوبر سے 26 اکتوبر 1947ء تک سری نگر کی طرف ان کی پیش قدمی کے چار اہم دن ضائع کئے اور اس طرح دارالحکومت اور وادی کے واحد ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے کی ان کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ اس کی ”شرارت“ نے مہاراجہ کو وقت دیا کہ وہ اپنے خاندان کو جموں کے محفوظ علاقے میں منتقل کر دے اور 26 اکتوبر کو بھارت کے ساتھ الحاق کے دستاویز پر دستخط کرے۔
حملہ آوروں نے شیروانی کے جسم میں 14 گولیاں داغ دیں، بارہمولہ کے ایک مصنف خالق پرویز کا شیروانی کی موت کے مطلق کہنا ہے کہ: ”انہوں نے اسے ری جینا سنیما کے قریب خان ہوٹل کے دو ستونوں سے باندھ کر گولی مار دی۔“
کہا جاتا ہے کہ، شیروانی، جو خود نیشنل کانفرنس کا رکن تھا، نے حملہ آوروں سے کہا کہ وہ انہیں سرینگر کا راستہ دکھائے گا، اس کے بجائے، اس نے انہیں غلط راستے پر ڈال کر گمراہ کیا، غلط اور دشوار کن راستے نے حملہ آوروں کی پیش قدمی سست کی، جس سے بھارت کی فوج کو کافی وقت ملا اور بالآخر 27 اکتوبر کو بھارتی فوج سری نگر ہوائی اڈے پر اتری۔
ایک اور بیانئے کے مطابق، شیروانی نے بائیک پر سوار ہو کر حملہ آوروں سے کہا کہ سرینگر کی طرف نہ بڑھو کیونکہ فوج پہلے ہی وہاں اتر چکی ہے۔ اس نے قبائلی افواج کی پیش قدمی روک دی اور بھارتی فوج کے لئے قیمتی وقت خریدا۔ حملہ آوروں کو 7 نومبر کو سری نگر کے باہر چند کلومیٹر کے فاصلے پر شالٹینگ میں روکا گیا اور اگر حملہ آور بھارتی فوج سے پہلے سری نگر پہنچ چکے ہوتے تو کہا جاتا ہے کہ جنگ بہت مختلف طریقے سے ختم ہو سکتی تھی۔
مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ چھاپہ ماروں کو شیروانی کی چال کے بارے میں تب پتہ چلا جب وہ بارہمولہ قصبے سے 35 کلومیٹر دور سمبل میں تھا۔ وہ اسے قتل کرنے کے لیے واپس شہر لے آئے۔ لاش کچھ دن تک لٹکی رہی جو دوسرے رہائشیوں کے لیے ایک سخت انتباہ تھی۔
شیروانی کے شہادت کے ایک عینی شاہد علی محمد بٹ نے موقر انگریزی روزنامے ٹائمز آف کے انڈیا کے نمائندے کو بتایا کہ ”قبائلیوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ ایک انیس برس کے چھوکرے نے انہیں بے وقوف بنایا، میں نے اپنی آنکھو ں سے دیکھا کہ نیم مردہ شیروانی کو موٹر سائیکل کی پٹرول ٹینکی پر لٹکا کر لے جایا جا رہا تھا، بعد میں انہیں لکڑی کے ایک تختے پر لٹا کر کیل ٹھوکے گئے اور 10 سے 15 گولیاں اس کے نیم مردہ تن میں ڈالی گئیں۔
مقبول کی اس بہادر ی پر روشنی ڈالتے ہوئے، اس کے رشتہ دار غلام محمد شیروانی، جو جنرل سیکرٹری، ضلع کانگریس کمیٹی، بارہمولہ تھے، کا کہنا ہے کہ 1947ء میں، محمد مقبول شیروانی صرف 19 سال کے تھے لیکن انہوں نے اکیلے ہی ہزاروں حملہ آوروں کی پیش قدمی کو روکا جس اقدام سے ہندوستانی فوج کو سری نگر میں اترنے اور حملہ آوروں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے قیمتی مل گیا۔ ان کاکہنا ہے کہ شیروانی کی لاش اس وقت سولی سے اتاری گئی جب فوج اس مقام پر پہنچی۔ غلام محمد کا کہنا تھا کہ”آج شیروانیوں کو’غداروں‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور انہیں ’ہندوستانی ایجنٹ‘ کہا جا رہا ہے۔
غلام محمد کا کہنا تھا کہ جب حملہ آور سرینگر کی طرف جا رہے تھے، مقبول شیروانی نے دراندازوں کو غلط راستوں پر گمراہ کیا اور ان کے چار قیمتی دن ضائع کر دیئے تاکہ بھارتی فوج اپنے دفاع کے لیے سری نگر پہنچ سکے۔ جب مقبول کو چھاپہ ماروں نے پکڑ لیا تو چھاپہ ماروں کے امیر نے نرمی سے مقبول سے کہا ”تم ایک امید افزا نوجوان ہو۔ اگر آپ خود ہمارے ساتھ شامل ہوئے تو ہم آپ کو معاف کر دیں گے۔ آپ کے دل کی تبدیلی کے مثبت ثبوت کے طور پر، آپ ہمیں شالٹینگ میں ملیشیا (ریاستی فورس) اور بھارتی فوجیوں کی خفیہ پوزیشن ضرور بتائیں اور ہمیں سری نگر ایئرپو رٹ کا مختصر ترین راستہ بھی دکھائیں۔“ لیکن مقبول شیروانی نے دو ٹوک اور سخت لہجے میں کہا کہ ”ایسا ہرگز نہیں ہو گا“۔ حملہ آوروں کے امیر نے اردو میں ایک کاغذ پر ”شیروانی غدار ہے، اس کی سزا موت ہے“ لکھا اور اسے شیروانی کے ماتھے پر چسپاں کیا۔ امیر نے اپنے جوانوں کو حکم دیا، ”اس کے کان اور اس کے گرتے ہوئے سر اور بازؤں کو سیدھے پوسٹوں پر باندھ دو تاکہ ہر راہگیر اسے دیکھ سکے۔
8 نومبر 1947ء کو حملہ آوروں کو بارہمولہ سے نکال دیا گیا۔ رہائی پانے والوں کی پہلی کارروائی میں سے ایک شیروانی کی میت کو دوبارہ حاصل کرنا اور اسے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ قصبے کی جامع مسجد کے قبرستان میں دفن کرنا تھا۔
بارہمولہ میں، نیشنل کانفرنس کے ایک سرگرم کارکن شیروانی، پاکستان نواز مسلم کانفرنس کے ساتھ ایک سیاسی جھگڑے کی لپیٹ میں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب محمد علی جناح نے کشمیر کا دورہ کیا اور بارہمولہ میں اپنے ’دو قومی نظریہ‘ پر بات کی تو شیروانی نے انہیں پلیٹ فارم سے نیچے آنے پر مجبور کیا اور اس سے ان کی تقریر رک گئی۔ دراصل دونوں جماعتیں، ریاست میں پہلے ایک ہی سیاسی جماعت تھیں، جب شیخ محمد عبداللہ نے 1932ء میں سیاست کا آغاز کیا تو انہوں نے مسلم کانفرنس کے نام سے ایک جماعت قائم کی لیکن پھر شیخ عبداللہ نے 1939ء میں اس کا نام نیشنل کانفرنس رکھ دیا، جس کی قیادت کے ایک حصے نے مسلم لیگ سے روابط کے ساتھ مسلم کانفرنس کو الگ کرنے اور دوبارہ قائم کرنے پر زور دیا۔ کہا جاتا ہے کہ شیروانی ”شیر کشمیر“ یعنی شیخ محمد عبداللہ کا بچپن سے ہی شیدائی تھا اور اس طرح نیشنل کانفرنس کا ایک سرشار کارکن بن گیا اور 1939ء میں جب شیخ محمد عبداللہ نے آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی، مقبول شیروانی اس کا ایک سخت حامی رہا۔
شیخ محمد عبداللہ کے بارے میں غلام محمد کا کہنا تھا کہ وہ ایک خود غرض شخص تھے جنہوں نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنے وفادار کارکنوں کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ یہ روایت اب بھی نیشنل کانفرنس میں جاری ہے۔ جب میرے بھائی کو قتل کیا گیا تو مقبول کے والد محمد عبداللہ شیروانی نے شیخ محمد عبداللہ سے ملاقات کی اور اپنے دوسرے بیٹے کے لیے معاش کا مطالبہ کیا۔ شیخ محمد عبداللہ نے پرواہ نہیں کی، غلام محمد، مقبول شیروانی کے خاندان کا واحد شخص ہے جس نے 1958ء میں اس وقت سیاست میں شمولیت اختیار کی جب وہ محکمہ تعلیم میں خدمات انجام دے رہا تھا۔ بعد میں، وہ 1975ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے ایک فعال رکن بن گئے۔
خالق پرویز کے مطابق، یہ تقسیم سے کچھ سال پہلے کی بات ہے میں دریائے جہلم کے ایک گھاٹ پر بیٹھا تھا کہ دوسری طرف ہنگامہ آرائی کی آوازیں سننے کی ملیں، جب میں نے سر اٹھا کر اس جانب دیکھا تو یہ شیروانی تھا، جس کا پیچھا مسلم کانفرنس کے کارکن کر رہے تھے، لیکن اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی اوربحفاظت تیر گیا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو اس کی سیاست سے متفق نہیں تھے وہ اسے ایک جہنمی شخص کے طور پر یاد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو کہ ہجوم کو متاثر کر سکتا ہے۔ پرویز نے دعویٰ کیا، ”وہ موٹر سائیکل چلانا نہیں جانتا تھا، اس نے تین دن میں حملہ آوروں کو گمراہ کرنا سیکھا۔“
شدید سیاسی دشمنی کے درمیان بھی شیروانی نے کچھ غیر معمولی دوستیاں بنائیں۔ بارہمولہ کے ایک شخص فاروق شال کا کہنا ہے کہ ان کے والد، حاجی نورالدین شال، جو کہ مسلم کانفرنس کے ایک کٹر حامی تھے، کی شیروانی کے ساتھ گہری دوستی تھی۔ 1947ء سے پہلے، نور الدین شال نے بارہمولہ مارکیٹ میں ایک نیوز اسٹینڈ چلایا تھا۔ یہ شیروانی سمیت سیاسی کارکنوں کا مرکز بن گیا۔ اس طرح دونوں آدمی ملے اور دوست بن گئے۔ فاروق شال نے کہا کہ اگرچہ وہ نظریات کی مخالفت پر یقین رکھتے تھے، لیکن دونوں افراد نے کبھی لڑائی نہیں کی۔ شاید اس لیے کہ انہوں نے کچھ اہم مشترکہ بنیادیں بنائی ہوئیں تھیں۔ ”میرے والد کہتے تھے کہ شیروانی ایک سچے اور کشمیری قوم پرست تھے“۔
شال کا کہنا تھا کہ میرے والد کہتے تھے کہ جب مسلم لیگ کے رہنما محمد علی جناح بارہمولہ کے پرانے قصبے میں ایک جلسے سے خطاب کرنے آئے تو مسلم کانفرنس کے رہنما فاروق شال کے چچا نے پہلے ایک یادداشت پڑھی اور اس کے والد نے اسٹیج شیئر کیا۔ انہوں نے کہا کہ شیروانی کے لوگوں نے اجتماع میں خلل ڈالنے کی کوشش کی اور افراتفری پھیل گئی۔ میرے والد نے میرے چچا کو پکڑ لیا اور اسے بچانے کی کوشش کی۔ شیروانی نے پھر اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ اس کے ساتھ کچھ نہ کرو، وہ میرا دوست ہے۔
اسی طرح چند سال کے بعد، نور الدین شال نے بھی اپنے دوست کو بچانے کی کوشش کی۔ جب حملہ آوروں کی خبر بارہمولہ پہنچی تو وہ جہلم کے ایک پل کے قریب اپنی مشہور موٹر سائیکل پر شیروانی سے ملا تھا۔ فاروق شال کا کہنا تھا کہ، میرے والد نے کہا کہ وہ آ رہے ہیں لیکن شیروانی نے کہا، نہیں، میں شیر کشمیر کے ساتھ ہوں، میں ان سے لڑوں گا۔
کچھ دن بعد، نور الدین شال کو خبر ملی کہ شیروانی سمبل میں پکڑا گیا ہے اور اسے واپس بارہمولہ لایا جا رہا ہے۔ اس نے دوڑنا شروع کیا۔ جب وہ اس مقام پر پہنچا جو اب کریاپہ پارک کے نام سے جانا جاتا ہے، اس نے سنا کہ شیروانی کو گولی لگی ہے ادھر سڑک کے نیچے۔ جہاں اب شیروانی ہال بنایا گیا ہے۔ فاروق شال یاد کرتے ہوئے کہتا ہے والد صاحب اکثر کہتے تھے کہ، ”اگر میں وقت پر پہنچ جاتا تو وہ اسے قتل نہ کرتے۔“
شیخ محمد عبداللہ نے شیروانی کی بہادری کے اعتراف میں سرینگر کے ریذڈنسی روڑ کا نام بدل کا شیرانی روڑ رکھا تھا لیکن یہ نام آج کہیں موجود نہیں ہے بلکہ اسکے بجائے یہ راستہ اسی برطانوی سامراجی دور کے نام یعنی ریذڈنسی روڑ سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ اسی طرح بارہمولہ کا شیروانی ہال جو 1989ء میں آگ کی پر اسرار واردات میں خاکستر ہوا، کو بعد ازاں فوج نے از سرنو تعمیر کر کے عوام کے لئے وقف کیا، اسی طرح صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں ایک وارڈ شیروانی کے نام سے منسوب ہے، سوائے ان ناموں کے، شہید مقبول شیروانی کانام کشمیر کی موجودہ تاریخ میں کہیں بھی درج نہیں۔
معروف و مشہور شاعر مہجور نے اپنی نظم ”نالہ شیروانی“ میں 6 اور 7 نومبر کی رات کو شیروانی کی تکلیف کا خلاصہ اپنی اس نظم میں کیا جب وہ بارہمولہ میں حملہ آوروں کی قید میں تھا۔ اس نے شیروانی کے پیغام کو کشمیری عوام کے لیے لکھا ہے۔ مہجور، شیروانی کے ذریعے حملہ آوروں کو ’آدم خور‘ اور ’بدمعاش‘ کہتا ہے:
آدم خور پہاڑوں سے اترے ہیں
ان کے ہاتھوں پر بے گناہوں کا خون ہے
انہوں نے میرے ملک کو ایک حقیقی جہنم بنا دیا ہے
یہ پھولوں کا باغ تھا اور انہوں نے اسے برباد کر دیا ہے
انہوں نے اپنے تیروں کو عندلیبوں پر سادھا
انہوں نے پتھر بلور کی دکانوں پر پھینکے