اقبال احمد
کشمیر میں پچھلے چند ہفتے انتہائی افسوسناک رہے کیونکہ ایک بار پھر اس بدقسمت زمین پر بے گناہوں کے خون سے تر کی گئی۔ اب کی بار مہلوکوں میں بہار اور اترپردیش کے غریب خوانچہ فروش اور عام مزدور ہیں۔
اس کے علاوہ ممتاز کشمیری پنڈت کاروباری شخصیت اور سکھ برادری سے تعلق رکھنے والی ایک سکول کی سربراہ کو بھی ہلاک کیا گیا۔ یہ ان متعدد مسلمانوں کے علاوہ ہیں جو کرائے کے قاتلوں کی گولی کا شکاربنے۔ عام خیال یہی ہے کہ ان کرائے کے قاتلوں کی ڈور یں سرحد پارسے ہلائی جاتی ہیں۔
سیاست کو چھوڑیں معصوموں کا قتل عام دنیا بھر میں مذموم حرکت اور غیر انسانی فعل ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ کشمیر جہاں پاکستان کا دم بھرنے والی انتہا پسندی نے دہشت کو ہتھیار بنایا ہے وہاں ایسے قبیح فعل سرانجام دینے میں نہ تو انسانیت اور نہ ہی اخلاقیات کی کوئی پرواہ کی جاتی ہے۔ ان لوگوں نے ہر گھناؤنی اور وحشیانہ حرکت کے لئے مذہب کو ہی استعمال کیا ہے۔
یہ بات آپ بلا تامل کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر میں پراکسی وار کے سب سے زیادہ متاثر غریب کاشتکاراور مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ امیر اشرافیہ نے اس سانحے سے بے پناہ فائدہ اٹھایا ہے۔ ان میں سے چند امیر اشرافیہ ملائیشیا، یورپ، امریکہ اور خلیج میں اپنی زندگیوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تشدد کی ایسی کارروائیوں کی توثیق کرتے رہتے ہیں۔ عام کشمیری مسلسل اذیت کا شکار ہیں۔
متاثرین چاہئے عام شہری ہوں یا پھر کشمیر پولیس اہلکار، سکیورٹی دستوں کے افراد یا پھر عسکریت پسند سب اس پس پردہ جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ اب مہاجر مزدور بھی نفرت کی اس بھٹی میں جل رہے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی تنازعہ ہو وہاں ایسے طبقوں کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
مقتول مزدور یا ملازمین سیاست اور مذہب سے بالاتر ہو کر اپنے کام میں لگے ہوتے ہیں۔ ان کی واحد فکر خون پسینہ بہا کر روزی روٹی کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لئے وہ مشکلات جھیلتے ہیں۔ زندگی کا یہ بنیادی سوال ہر سال ہزاروں مزدوروں کو کشمیر لاتا ہے۔ یہاں کے حالات خراب ہونے کے باوجود جموں و کشمیر کے مزدور سردیوں کے دوران دوسری ریاستوں میں کام کرنے جاتے ہیں۔ ادہر پچھلی تین دہائیوں سے تنازعہ بڑھ رہا ہے لیکن کشمیر نے ہمیشہ غیر مقامی مزدوروں کا خیرمقدم کیا جو مختلف ریاستوں اور یہاں تک کہ نیپال اور تبت جیسے بیرونی ممالک سے یہاں آتے ہیں۔
درحقیقت، کشمیر کو درکار افرادی قوت کا زیادہ تر انحصار بہار اور یوپی جیسی ریاستوں پر ہے۔ بدقسمتی سے، حالیہ حملے نے ان کے درمیان خوف اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر دی ہے اور وہ قبل از وقت یہاں سے جان بچا کر نکل رہے ہیں۔ ان مزدوروں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کوویڈ لاک ڈاؤن کے دوران بھی یہاں ہی رہے تھے۔ انہوں نے ایسا شاید اس اعتماد کی وجہ سے کیا جو انہیں مقامی لوگوں پر ہے۔ مقامی لوگوں کے ساتھ مہاجر مزدور ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ مقامی لوگ انہیں اچھی اجرت بھی دی اور باقی ہندوستان کے برعکس مقامی لوگوں نے مفت کھانا اور رہائش بھی فراہم کی ہے۔
ریاست جموں و کشمیر ہمیشہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کی بھرپور روایات کی حامل رہی ہے۔ ریاست میں ہنگاموں کے انتہائی خوفناک مراحل کے دوران بھی وقت کے امتحان میں کھری اتری۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ان غریب مزدوروں کو نشانہ کیوں بنایا گیا؟ اس حملے کے مجرموں کو چند سبق درکار ہیں کہ تمام مشکل حالات کے باوجود وادی کا سیکولر اور ہم آہنگی کا تانا بانا کیسے کھڑا ہے۔ وہ اس ’روشنی‘کو بھول جاتے ہیں جو 1947ء میں تقسیم کے تمام خونی واقعات کے درمیان مہاتما گاندھی نے کشمیر میں دیکھی تھی۔
یہ ہلاکتیں اور تشدد اس شیطانی چکر کے جاری رہنے کی طرف بھی اشارہ ہیں جو یہاں کسی کے کہنے پر چلایا جا رہا ہے۔ ایسے واقعات حکومت کے ان دعووں کی نفی کرتا ہے جس میں یہاں حالات میں بہتری آنے کا کہا گیا تھا، آج کشمیری اور غیر مقامی لوگ عدم تحفظ کاشکار ہیں۔
ہر دن کہیں نہ کہیں سے کسی افسوس ناک قتل کی خبر لاتا ہے۔ ایسے حالات میں حکومت بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ ان افسوسناک واقعات کے حوالے سے کشمیری سول سوسائٹی میں بے حسی اور تھکاوٹ عیاں ہے جبکہ دائیں بازو کے حلقے کشمیر کا استعمال کرتے ہوئے سرزمین بھارت میں سوشل میڈیا پر نفرت پھیلاتے رہتے ہیں۔ حالات اس ڈگر پر نہیں چل سکتے ایسے واقعات کو روکنا ہو گا اور ایسے افراد کا خاتمہ ناگزیر ہے جو ہماری فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے دشمن ہیں۔ تاہم یہاں کی فضا میں جو مایوسی اور ناامیدی کی چادر تن گئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس طرح کے قتل انتہائی قابل مذموم فعل ہیں جن کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہو گی۔
ایسے اقدام کشمیری اخلاق اور بنیادی انسانی اقدارکے خلاف ہیں۔ کشمیر ی سماج نے کبھی بھی ایسی ہلاکتوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی کیونکہ کشمیری سماج پہلے ہی 90ء کی دہائی میں ہونے والی جبر ی پنڈت ہجرت کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکا ہے۔ اسے اب دوبارہ دہرانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
کسی بھی معاشرے کے انسانی کردار کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے لیکن سچ پوچھیں تو ہم پچھلی 3 دہائیوں میں اس امتحان میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک مکروہ اور شرمناک حقیقت ہے جس سے اب مزید پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔ کشمیر یوں کو پر امن زندگی گزرانے کیلئے بیرونی سرپرستی میں جاری، تباہی، غیر انسانی فعل اور موت کے اس کھیل کو ناکام بنا ہو گا۔