لال خان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان کہ نریندرا مودی نے اس کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالث بننے کی درخواست کی تھی‘ خصوصی طور پر بھارت میں ایک زبردست سیاسی ہل چل کا موجب بنا ہے۔ بھارت کی ایک طویل عرصے سے جاری پالیسی یہ رہی ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات صرف باہمی مذاکرات کے ذریعے حل ہونے چاہئیں۔ ٹرمپ کا بیان یا انکشاف اس پالیسی سے مودی کے انحراف کی غمازی کرتا ہے لہٰذااس بیان کی وجہ سے ایک ہنگامہ آرائی جاری ہے۔
بھارتی تردید کے باوجود ٹرمپ نے اپنا بیان واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔ ادھر نریندرا مودی نے بھی اس بیان کو جھوٹاقرار نہیں دیا۔ گو بھارتی حکومت نے اس بیان کی حقیقت سے انکار کیا ہے۔ لیکن ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پر عمران خان نے جو فرمایا وہ المناک ہے۔ انہوں نے ایک طرح سے بٹوارے کے ذریعے حاصل ہونے والی آزادی کی حقیقت پر ہی سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ عمران خان نے ٹرمپ کی تعریف میں کہا کہ برصغیر کے ڈیڑھ ارب لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کو بہت دعائیں دیں گے۔ یہ الگ سوال ہے کہ اتنے مذہبوں اور فرقوں پر مشتمل پر ڈیڑھ ارب لوگ کن دیوتاؤں کے آگے ٹرمپ کی عظمت اور اس کی عمردرازی کی التجائیں کریں گے۔ لیکن عمران خان کی اس مدح سرائی کا اصل المیہ یہ ہے کہ 72 سال بعد بھی یہاں پر ایک سامراجی طاقت کے جارح، مغرور، نسل پرست اور ناقابلِ اعتماد حکمران سے توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک جنگجو ذہنیت رکھنے والا سامراجی حکمران کشمیر جیسے پیچیدہ اور خونی مسئلے کو حل کروا د ے گا۔
اگر ہمارے حکمران ٹرمپ کے لئے دعائیں کروانے کی نہج پر پہنچ گئے ہیں تو اس سے ان کی اقتصادی انحصار سے نوآبادیاتی محکومی تک کی نفسیات ہی بے نقاب ہوتی ہیں۔ 1947ء کے خونی بٹوارے میں جہاں برصغیر میں پنجاب اور بنگال کو چیر دیا گیا وہاں انگریز سامراج نے شعوری طور پر کشمیر کی اس انداز اور ایسی قانونی پیچیدگیوں سے تقسیم کی کہ یہ مسئلہ برصغیر میں ایک مستقل تنازعے‘ تناؤ‘ جنگ‘ تشدد‘دہشت گردی اور باہمی دشمنیوں کا ایندھن بنا رہے۔
سامراج اس عدم توازن‘ جنگی تناؤ اور برصغیر میں منافرتوں کی سازش سے اپنی بالواسطہ مداخلت اور تسلط جاری رکھنے میں کامیاب ہوا ہے۔ برطانوی سامراج کی زوال پذیر ی کے بعد امریکی سامراج کے ابھار کے ساتھ یہ سامراجی پالیسی اس خطے میں جاری ہے۔ نہ صرف سامراجیوں نے بلکہ برصغیر میں ان کے پیوند کردہ حکمران طبقات نے اس دشمنی اور تناؤ کو اپنے مخصوص مفادات کے لئے مسلسل استعمال کیا ہے۔ جب بھی بھارت اور پاکستان میں حکمرانوں کو داخلی انتشار اور ان کی حکمرانی کو تحریکوں کاچیلنج اور خطرہ پیش آیا اتو انھوں نے اس ”بیرونی“ تضاد کو ابھار کر داخلی بغاوتوں کو کچلنے کے لئے استعمال کیا۔ 1965ء، 1971ء اور کارگل کی جنگوں کے علاوہ بھی کئی بار ’جنگوں کے بغیر حالتِ جنگ‘ کی کیفیات پیدا کی گئی ہیں۔
سامراجیوں نے اس تناؤ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی سب سے منافع بخش صنعت ”اسلحہ سازی“ (ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس) کو منافعے دلوائے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ بھارت اور پاکستان دنیا کے 10 سب سے زیادہ جنگی آلات پر خرچ کرنے والے ممالک میں شامل ہیں جبکہ تعلیم اور علاج جیسے شعبوں میں خرچ کرنے کے حوالے سے یہ دونوں ممالک دنیا بھر میں آخری نمبروں پر آتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ پوری کوشش بھی کر لے تو بھی کشمیر یوں کی آزادی تو درکنار اس مسئلہ کو مروجہ سفارتکارانہ اورجغرافیائی بنیادوں پر بھی حل نہیں کروا سکتا۔ دوسری جانب ٹرمپ اتنا بھی ”دیوانہ“ نہیں ہے جتنا وہ ناٹک کرتا ہے۔ وہ ایک شاطر، کاروباری اور طاقت کا بچاری سیاستدان ہے۔وہ مارٹن لاک ہیڈ‘ جنرل ڈائنامکس اور ہیلی برٹن جیسی اسلحہ ساز اجارہ داریوں کا نقصان نہیں کر سکتا۔
اسی طرح برصغیر میں بہت سی صنعتیں، ادارے، اشرافیہ کے حصے اور مذہبی ٹھیکیددار بھی ہیں جن کے ریڈکلف لائین کے دونوں اطراف اس تنازعے سے بے شمار مالی‘ سیاسی اور سماجی مفادات جڑے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایک فرسودہ ادارہ ہونے کے حوالے سے کشمیر اور فلسطین کے سلگتے ہوئے زخموں نے کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ اگر مذاکرات کا کسی طرح آغاز ہو بھی جاتا ہے تو پچھلے 72 سال میں یہ ہوتا ہی رہا ہے۔ بات بس مذاکرات برائے مذاکرات سے آگے کبھی بڑھی نہیں۔
یہاں سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان‘ نریندرا مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کب سے کشمیریوں کے نمائندے بن کر ان کے مقدر کا فیصلہ کرنے لگے ہیں؟ یہاں صرف برصغیر کے حکمرانوں تک یہ مسئلہ محدود نہیں بلکہ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کشمیر کے عوام کی اصل نمائندگی کرتا کون ہے؟ کشمیر میں دونوں طرف زیادہ تر تو کوئی حقیقی انتخابات ہی کبھی نہیں ہوئے۔ خطے کی طاقتور ریاستوں کے کنٹرول میں ہونے والے انتخابات سے اوپر آنے والے رہنما کیا واقعی کشمیریوں کے حقوق کے حقیقی نمائندہ ہیں؟ اس سوال پر بھی اگر غور کیا جائے تو امکان یہی ہے کہ ایسے انتخابات اور نمائندوں کو کشمیر کے محکوم عوام مسترد ہی کریں گے۔ تین جنگوں‘ لامتناہی مذاکرات‘ خفیہ سفارتکاری اورسربراہان کے تشہیر زدہ دوروں سے کشمیر کا مسئلہ حل کے قریب ہونے کی بجائے دور ہی ہوتا چلا گیا ہے۔
اس کے معنی تویہ بھی نکلتے ہیں کہ یہ حکمران اس مسئلہ کو حل کرنا ہی نہیں چاہتے۔ادھر کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کش عوام نے جس مزاحمت، جدوجہد اور قربانی کی تاریخ رقم کی ہے‘ ایسی مثال حالیہ دہائیوں میں کم ہی دیکھنے کو ملی ہے۔
اس مزاحمت کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مذاکرات اور سفارتکاری کا ڈھونگ کئی بار رچایا گیا ہے۔ ان سفارتکاریوں اور مذاکرات کے بعد کشمیر کی تین حصوں میں تقسیم (Trifurcation)، موجودہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کیا جانا، آمد و رفت میں اضافہ اور اس قسم کی دیگر تجاویز جنرل مشرف سے لے کر ایل کے ایڈوانی تک، کئی ہندوستانی اور پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے پچھلی دو دہائیوں میں سامنے آ چکی ہیں۔ سب بے سود۔ ایسے کاسمیٹک اقدامات پر مبنی”حل“ اس حساس مسئلہ کا حل نہیں۔
مندرجہ بالا تجاویز کشمیر میں مستقل حل یا امن سے متصادم ہیں۔ دوسری جانب بھارت کے حکمرانوں نے مقبوضہ کشمیر میں جمہوریت کا جتنا واویلا کر رکھا ہے اتنی ہی وحشیانہ درندگی سے وہاں کشمیریوں کا قتل عام بھی جاری ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے حق خودارادیت کی قرارداد اور اس کو حل بنانے کا چرچا سات دہائیوں سے جاری رکھا ہوا ہے لیکن کیا اس حق خودرادایت میں پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے علاوہ اس شق پر بھی رائے شماری ہونے دی جائے گی کہ کشمیریوں کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا حق بھی حاصل ہے؟
اس پر برصغیر کے حکمرانوں کا موقف ہمارے سامنے ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کشمیر پر خطے کی ریاستوں کا جبر ان کے سامراجی جرائم کی عکاسی کرتا ہے۔ نہ صرف کشمیر کے معدنی وسائل کا استحصال ان کے پیش نظر ہے بلکہ اقتصادی اور سٹریٹجک بنیادوں پر کشمیر حکمرانوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر صرف کشمیر سے شروع ہونے والے دریاؤں اور پانیوں کے مسئلہ پر ہی غور کریں تو حکمرانوں کے لئے کشمیر کے مسئلہ کی اہمیت واضح ہو جائے گی۔
لیکن جو حکمران کشمیر پر ظلم و جبر ڈھا رہے ہیں وہ برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں پر بھی ذلت، محرومی اور اذیتوں کو جبر سے مسلط کیے ہوئے ہیں۔ محنت کا استحصال‘ وسائل کی لوٹ مار‘ جغرافیائی اور سٹرٹیجک مفادات اور دوسرے ایسے سیاسی مسائل ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام اور ریاستوں کے لئے قبضہ کرنے کی خصلت کو جنم دیتے ہیں۔ جب تک اس لوٹ مار‘ دولت کی ہوس‘ظلم وبربریت، استحصال اور نوآبادیاتی غلامی کا خاتمہ نہیں ہوتا کشمیر یا برصغیر کے کسی بھی خطے کے عام انسانوں کی آزادی اور تہذیب کی ترقی ممکن نہیں ہے۔