آج فیض احمد فیض کا 37 واں یوم وفات ہے۔ اس موقع پر ماضی کے نامور براڈکاسٹر آغا ناصر کا یہ مضمون از سر نو پیش کیا جا رہا ہے۔
آغا ناصر
فیض صاحب سنجیدہ صفت انسان تھے مگر ان کی سنجیدگی میں بھی ایک عجیب طرح کی خوشگواری اور آسودگی محسوس ہوتی تھی۔ وہ مسکراتے تو ہر وقت رہتے تھے مگر طنز ومزاح ان کی گفتگو میں شامل نہیں تھا۔ میرا ان کا رشتہ ہی بزرگی اورنیاز مندی کا تھا۔ ممکن ہے اپنے قریبی دوستوں اور ہم عمروں کی صحبت میں لطیفہ گوئی اور ہنسی ٹھٹھا کرتے ہوں یا شاید اپنے اہل خانہ کے ساتھ۔ میں نے کبھی سلیمہ، منیزہ یا شعیب ہاشمی سے پوچھا نہیں لیکن یہ بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک خوش مزاج آدمی تھے۔ مذاق اور تفریح کو دل سے پسند کرتے تھے اور گاہے بگاہے اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔ میری بیوی کا نام صفیہ ہے مگر فیض صاحب جب بھی ان کو دیکھتے تو کہتے ”بھئی تم رضیہ یا صفیہ ہو“۔ آخر بار بار کے پوچھنے پر ایک بار جب وہ ہمارے گھر آئے ہوئے تھے اور انہوں نے پھر ہنس کر سوال کیا تو صفیہ نے کہا فیض صاحب میں آپ کو بار ہا اپنا نام بتا چکی ہوں اب اگر پھر کبھی آپ نے پوچھا تو میں خفا ہو جاؤں گی۔ وہ بہت ہنسے اور بولے ”بھئی ہمارا بار بار پوچھناتمہیں برا لگتا ہے۔ یہی تو ہمیں اچھا لگتا ہے“ اسی طرح ایک بار ان کا فون آیا تو میرے بیٹے نے اٹھایا جس کی عمراِن دنوں دس بارہ برس کی ہوگی۔ اس نے ریسیور ہاتھ میں پکڑے زور سے آواز لگائی ”ابی فیض انکل فیض کا فون ہے“ جب میں نے ریسیور ہاتھ میں لیا تو دوسری طرف فیض صاحب بے تحاشا ہنس رہے تھے کہ بھئی یہ فیض انکل فیض تو کمال کی اصطلاح ہے۔
فیض صاحب بڑے حاضر دماغ انسان تھے۔ جب خوشگوار موڈ میں ہوں تو ایسا ایسا فقرہ کہتے تھے کہ انسان عش عش کر اٹھے۔ ایک ایسی ہی شام میرے حصہ میں آئی، جب فیض صاحب میرے گھر رات کے کھانے پر آئے ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ پی ٹی وی میں ہمارے نئے نئے مقرر کردہ چیئرمین ہارون بخاری تھے جو پطرس صاحب کے بیٹے اور زیڈ اے بخاری کے بھتیجے تھے۔ اسی حوالے سے بات ان دونوں بزرگوں یعنی بخاری برادران پر چل نکلی۔ فیض صاحب بخاری برادران کی باتیں کرتے رہے۔ پطرس بخاری کی دانشوری اور طنز و مزاح والی تحریریں اور زیڈ اے بخاری کی اداکاری اور لطیفہ گوئی خاص موضوع تھا چونکہ لطیفوں کی بات ہو رہی تھی تو ہارون بخاری صاحب نے کہا، میں بھی ایک لطیفہ سناؤں گا شاید اس طرح وہ اپنے باپ اور چچا سے اپنے حسِ مزاح اور فنکارانہ صلاحیتوں کے رشتے استوار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہارون بخاری نے جو لطفہ سنایا، وہ کچھ اس طرح سے تھا ”کسی جنگل میں ہاتھی سیر کے لیے نکلا۔ سامنے سے ایک چوہا آرہا تھا۔ چوہے نے اس سے پہلے کبھی ہاتھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ اس عظیم الجثہ مخلوق کو دیکھ کر بڑا حیران ہوا اور اس سے پوچھا ”تو کون ہے…؟“ ہاتھی نے جواب دیا ”میں ہاتھی ہوں۔“ چوہے نے پھر سوال کیا۔ ”تو کہاں رہتا ہے؟“ جواب دیا ”اسی جنگل میں۔“ چوہے کی حیرت کم نہیں ہو رہی تھی۔ آخر کار ڈرتے ڈرتے اس نے سب سے اہم سوال کر ڈالا۔ ”تیری عمر کیا ہے؟“ ہاتھی نے جواب دیا۔ ”تین سال۔“ چوہا جواب سن کر دُم دبا کر چپ چاپ ایک طرف کو چل دیا۔ تب ہاتھی نے اس کو روکا اور اس سے اس کا نام، اس کی رہائش وغیرہ کے بارے میں پوچھنے کے بعد آخری سوال کیا۔ ”اور تیری عمر کیا ہے؟“ چوہے نے گردن جھکالی اور بولا ”عمر تو میری بھی تین سال ہی ہے مگر ذرا صحت کمزور ہے“ لطیفہ ختم ہوا مگر کچھ اس انداز سے سنایا گیا تھا کہ کوئی نہیں ہنسا۔ تب فیض صاحب کی آنکھوں میں شرارت آمیز چمک آئی اور ہارون بخاری کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ”بھئی ہیں تو یہ بھی بخاری۔ پر ذرا صحت کمزور ہے“۔
1958ء میں جب ایوب خان کا مارشل لاء لگا تو فیض صاحب ادیبوں کے کسی وفد کے ساتھ روس گئے ہوئے تھے۔ انہیں ان کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ ملک میں مارشل لاء لگ چکا ہے، لہٰذا ان کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وفد کے ساتھ وطن واپس نہ جائیں۔ مجید ملک صاحب نے جو فیض صاحب کے بہت قریبی بزرگ دوست تھے، انہیں پیغام بھجوایا کہ آپ ماسکو سے لندن چلے جائیں اور فی الوقت وہیں قیام کریں۔
فیض صاحب مشورے کے مطابق لندن چلے گئے مگر تھوڑے ہی عرصہ بعد ان کو پاکستان کی یاد ستانے لگی اور پھر ایک دن وہ دوستوں کے مشورے اور بگڑے ہوئے ملکی حالات کو یکسر نظرانداز کر کے اچانک واپس لوٹ آئے۔ سنا ہے جب کراچی میں وہ مجید ملک صاحب سے ملے اور انہوں نے پوچھا کہ میں نے تمہیں پیغام بھجوایا تھا کہ ابھی مت آؤ تو فیض صاحب نے ہنس کر جواب دیا ”پیغام مل گیا تھا مگر ہم تو آگئے۔“ ان کے دوستوں کا خدشہ جائز تھا۔ دو چار روز کے بعد انہیں لاہور میں ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا اور ایک بار پھر زنداں کی زینت بنا دیا گیا۔
وطن واپسی سے قبل ایک اور دلچسپ قصہ بھی ہوا جس سے میرا بھی ایک تعلق رہا۔ ہوا یوں کہ 1981ء کے مئی یا جون کی ایک دوپہر میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ کراچی سے احمد مقصود حمیدی کا فون آیا جو ان دنوں غالباً صوبائی سیکرٹری اطلاعات تھے۔ احمد مقصود بڑے ٹھنڈے مزاج کے آدمی ہیں اور بڑی سے بڑی ہیجانی کیفیت میں بھی ان کا یہ Cool قائم رہتا ہے۔ انہوں نے اپنے مخصوص میٹھے اور نرم لہجے میں مجھے بتایا کہ آج صبح کراچی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک تماشہ ہوگیا۔ فیض صاحب کو جہاز میں سوار ہونے کی اجازت نہیں ملی اور اس وقت غلام رسول تالپور صاحب کے گھر میں ہیں۔ قصہ یوں ہوا کہ وہ یونیسکو کی کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے بیروت سے ٹوکیو جا رہے تھے۔ جب جہاز کراچی کے ایئرپورٹ پر اترا تو فیض صاحب بھی دوسرے مسافروں کے ساتھ ٹرانزٹ لاؤنج میں آگئے مگر کچھ دیر بعد جب یہ اعلان ہوا کہ فنی خرابی کے باعث جہاز کی پرواز میں چند گھنٹوں کی تاخیر ہوگی تو فیض صاحب نے سوچا کہ کراچی کے کچھ یار دوستوں سے ٹیلی فون پر بات کی جائے۔ انہوں نے فون تلاش کیا انہیں بتایا گیا کہ ٹرانزٹ لاؤنج میں فون نہیں ہے۔ فیض صاحب ہاتھ میں ٹیلی فون کی چھوٹی سی نوٹ بک لیے ٹرانزٹ لاؤنج سے باہر آگئے اور اپنے کچھ قریبی دوستوں کو فون کیا کہ بھئی ہم کراچی کے ایئرپورٹ پر ہیں۔ ہماری فلائٹ میں تاخیر ہوگئی ہے، آکر ہم سے مل لو۔ اس خبر سے احباب کی عید ہوگئی اور وہ برسوں کے بچھڑے اپنے محبوب فیض احمد فیض سے ملنے ایئرپورٹ پہنچ گئے مگر پھر ہوا یوں کہ جب مرمت کے بعد جہاز کی ٹوکیو روانگی کا اعلان ہوا اور فیض صاحب واپس جانے کے لیے چلے تو امیگریشن والوں نے انہیں کاؤنٹر پر روک لیا اور بتایا کہ ان کا نام Exit Control List پر ہے اور وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ فیض صاحب نے ان کو بہت سمجھایا کہ بھئی ہم تو پہلے ہی ملک سے باہر ہیں۔ اس وقت ایک بین الاقوامی مسافر کی حیثیت سے ایک غیر ملکی ایئرلائن سے سفر کر رہے ہیں اور صرف اپنے کچھ دوستوں سے ملنے لاؤنج سے باہر آئے تھے مگر امیگریشن والوں نے ایک نہ سنی۔ جب ہر طرح کی کوشش ناکام ہوگئی تو ان کے دوست ان کو شہر لے کر آگئے۔احمد مقصود نے مجھے بتایا کہ اب مسئلہ یہ ہے کہ صرف فیڈرل گورنمنٹ سے ان کو جانے کی اجازت مل سکتی ہے۔ مارشل لاء کے اس دور میں فیڈرل گورنمنٹ کا مطلب تھا۔CMLA سیکرٹریٹ اور چونکہ معاملہ فیض صاحب کا تھا، لہٰذا اجازت صرف جنرل ضیاء الحق کی سطح پر ہی دی جا سکتی تھی اور یہ کام ارباب نیاز محمد کرا سکتے تھے جو وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز تھے۔ میرے سپرد یہ کام ہوا کہ میں ارباب صاحب کو تلاش کروں اور ساری صورتحال سے آگاہ کروں۔ خدا کا شکر ہے ارباب صاحب مل گئے۔ انہوں نے فی الفور مارشل لاء سیکرٹریٹ سے رابطہ کیا اور فیض صاحب اپنی منزل کی طرف پرواز کر گئے۔ غالباً اسی کے بعد فیض صاحب نے اپنی یہ نظم لکھی۔
دار کی رسیوں کے گلوبند گردن میں پہنے ہوئے
گانے والے ہر اک روز گاتے رہے
پائیلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے
ناچنے والے دھو میں مچاتے رہے
ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اس صف میں تھے
راستے میں کھڑے ان کو تکتے رہے
رشک کرتے رہے
اور چپ چاپ آنسو بہاتے رہے
لوٹ کر آکے دیکھا تو پھولوں کا رنگ
جو کبھی سرخ تھا زرد ہی زرد ہے
اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا
دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے
اس واقعے کے اگلے برس1982ء میں فیض صاحب واپس وطن آگئے۔ یہ فیصلہ کرنے سے قبل وہ اسلام آباد آئے اور ارباب نیاز محمد کے مہمان ہوئے جنہوں نے جنرل ضیاء الحق سے ان کی ملاقات کا انتظام کیا۔ یہ اسی روز کی بات ہے جب جوش ملیح آبادی کا انتقال ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے وہ صدر پاکستان سے ملاقات کے لیے جانے سے پہلے قبرستان آئے تھے۔ عین اس وقت جوش صاحب کو لحد میں اتارا جارہا تھا۔ وہ بہت دیر تک قبرکے پاس کھڑے ان کے چہرے کو تکتے رہے۔ ان کے چہرے پر شدید غم کے تاثرات تھے۔ واپسی پر انہوں نے کسی سے کوئی بات نہیں کی۔ خاموش خاموش کھوئے کوئے سے وہ واپس چلے گئے۔ بعد میں ارباب صاحب نے مجھے بتایا کہ ضیاء صاحب سے ان کی ملاقات بہت مختصر رہی۔ انہوں نے فیض صاحب سے کہا۔ آپ تو ہمارے ادب کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔ آخر آپ ملک سے باہر کیوں رہتے ہیں؟ آپ کے پاکستان میں رہنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس پر فیض صاحب نے کہا کہ رہنے پر تو پابندی نہیں مگر میں چاہتا ہوں ملک سے باہر آنے پر پر بھی کوئی پابندی نہ ہو۔ جنرل ضیاء نے کہا‘ ایسا ہی ہوگا اور بس ملاقات ختم ہو گئی۔ اس کے بعد فیض صاحب نے اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کر ڈالی اور واپس آکر اپنے محبوب شہر لاہور میں سکونت اختیار کر لی۔ لیکن اس شہر کو دیکھ کر انہیں کچھ بہت خوشی نہیں ہوئی۔
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے
ہر شخص کا صد چاک پبادہ تو نہیں تھا
آغا ناصر کی کتاب ”گمشدہ لوگ“ سے ماخوذ۔