فاروق احمد
عمران خان کے تین سال کے اقتدار میں پے در پے ناکامیاں ملک کو تباہی کی طرف لے گئی ہیں۔ فی الحال اسٹیبلشمنٹ بھی یہ بات سمجھ چکی ہے کہ ان کا انتخاب غلط تھا۔
جن مقاصد کے لیے انہوں نے اقتدار عمران خان کے حوالے کیا تھا، ان کا خیال تھا کہ اسے 10 سالہ منصوبے کے ساتھ مکمل کیا جائیگا۔ لیکن پھر یہ منصوبہ بندی ناکام ہونے لگی۔ جب عمران خان کی حکومت کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آ رہی تھی تو ان کی دس سالہ منصوبہ بندی کو اب پانچ سال بھی مکمل کرنا مشکل تھا۔ اب وہ مستقبل کی حکومتوں کو آسانی سے کنٹرول کرنے کے لیے جلد از جلد قانون سازی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس وقت عوام ملک میں موجودہ معاشی بحران کو اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی سمجھ رہے ہیں کیونکہ عوام سمجھتے ہیں کہ عمران کو ان پر مسلط کرنے کی تمام تر ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔
اس وقت نہ صرف عمران خان کی حکومت زوال کا شکار ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ بھی بہت تیزی سے بے نقاب ہو رہی ہے۔ اب لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جلدی میں ہے۔ کوشش ہے کہ قلیل عرصے میں متنازعہ قوانین کو طاقت کے ذریعے اسمبلی سے پاس کرایا جائے اور آنے والے وقت میں اپنی حفاظت کی جائے۔ اس حکومت کی مقبولیت میں کمی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لیے ایسے فیصلے کئے جو کہ عوامی مفاد میں نہیں تھے۔
ادہر، اس وقت ملک میں اپوزیشن کا کردار انتہائی مایوس کن ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اب انتشار کا شکار ہیں۔ ایک غیر مقبول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کی مبہم پالیسی نے بھی عوام کو مایوسی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ لگتا ہے شہباز شریف دوسرا عمران خان بننے کو تیار ہے۔ دوسری جانب بلاول بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہے۔ ایک دو قوم پرست جماعتوں کے علاوہ کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولنے کے حق میں نہیں ہے۔
17 نومبر کو اسمبلی کے اندر جو کھیل کھیلا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ جسے عمران خان اپنی جیت تصور کر رہے ہیں، کل یہ قوانین ان کے اپنے گلے پڑیں گے۔ یہ سب ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔
وہ قوانین جو اسمبلی نے طاقت اور لاٹھی سے پاس کرائے ہیں۔ جس طرح سے ارکان کو اسلحہ کے زور پر لایا گیا، اس کا اظہار میڈیا پر کئی اراکین اسمبلی نے کیا ہے۔ ”ہم آئے نہیں بلکہ ہمیں لایا گیاہے“ ظاہر کرتا ہے کہ ان قوانین کو لانے کی ضرورت ان کو ہے جو پردے کے پیچھے رہتے ہوئے آنے والی سیاسی حکومتوں کو کنٹرول کر سکیں گے۔
2018ء کے انتخابات میں جس طرح سے پارٹیوں کو سیٹیں دی گئیں اس سے اسٹیبلشمنٹ کے مستقبل کے ارادوں کا واضح اشارہ مل گیا تھا۔ ایسے تمام رہنماؤں کو اسمبلیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی جو اسمبلی میں ان کے ایجنڈے کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے تھے۔ خاص طور پر پختون علاقے کی تمام قیادت کو اسمبلی سے باہر کر دیا گیا۔ ان میں مولانا فضل رحمان، اسفند یار ولی خان، محمود خان اچکزئی، سراج الحق، آفتاب احمد خان شیرپاؤ سرفہرست ہیں۔
ویسے الیکشن سے پہلے سب کے ساتھ وعدے کئے گئے تھے کہ آپ کو اتنی سیٹیں دیں گے اور اتنی سیٹیں دیں گے۔ اے این پی کہتی تھی کہ ہم سے 20 سے 25 سیٹوں کا وعدہ کیا گیا تھا۔ دوسرے لوگ بھی اسی طرح کے دعوے کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ تمام جماعتیں ایسے انتخابات کی عادی ہو چکی تھیں۔ لیکن اس بار اسٹیبلشمنٹ نے ان سب سے ہاتھ کیا۔ مولانا فضل رحمان اس بات سے زیادہ پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے ساتھ بارہا دھوکہ کیا ہے۔
اب ایسی اپوزیشن جو پہلے ہی تبدیلی اور اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے الیکشن لڑنے کی عادی ہے، ان سے کیا امید کی جا سکتی ہے کہ وہ مل کر جدوجہد کر سکیں گے۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں پیچھے رہ گئی ہیں اور عوام آگے نکل گئے ہیں۔ اسی لیے اپوزیشن جماعتیں بہت کم بیانات دے رہی ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز بھی بظاہر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیان بازی کر رہے ہیں لیکن کسی بڑی عوامی تحریک کے حق میں نہیں۔ وہ ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کے غیر جانبدار ہونے کے منتظر ہیں۔ پیپلز پارٹی پہلے ہی الگ ہو چکی ہے۔
کرونا وبانے پوری دنیا میں سرمایہ داری کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ واضح ہو گیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں غریب عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ اس وقت پاکستان کے اندر سب سے کمزور پوزیشن میں ہے۔ عوام بھی تمام بڑی سیاسی جماعتوں سے اکتا چکے ہیں۔ ایسے حالات میں ملک کی تمام بائیں بازو کی جماعتوں کو اپنے اندرونی اختلافات بھلا کر اتحاد کی صورت میں جدوجہد کرنی چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو بائیں بازو پاکستانی عوام کے ایک بڑے حصے کو سڑکوں پر نکالنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس سے پاکستان کے اندر آنے والے دنوں میں بائیں بازو کی سیاست مضبوط ہو سکتی ہے۔