دنیا

آرٹیکل 370 اور کشمیر: تاریخی پس منظر، موجودہ صورتحال اور جدوجہد آزادی

حارث قدیر

بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے بھارت کے زیر ِانتظام ریاست جموں کشمیر کو حاصل نیم خودمختارحیثیت کو تقویت فراہم کرنے والی بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو تقریباً ختم کرتے ہوئے نہ صرف ریاست کی نیم خودمختار حیثیت کا خاتمہ کر دیا ہے بلکہ ریاست کو عملاًدو حصوں میں تقسیم کر تے ہوئے ’انڈین یونین ٹیریٹریز‘ کا درجہ دے دیا ہے۔ جس کے بعد جموں اور کشمیر پرمشتمل یونین ٹیریٹری کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہو گی جبکہ مرکز ایک لیفٹیننٹ گورنر تعینات کرے گا۔ اسی طرح دوسرے حصے‘ لداخ کو براہ راست مرکز کے زیرِکنٹرول رکھا جائے گا اور اس پر بھی ایک لیفٹیننٹ گورنر تعینات کیا جائے گا لیکن اسے قانون ساز اسمبلی کا حق حاصل نہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت 1954ء میں منظور کی گئی اسی دفعہ کی ذیلی شق 35A کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے جس کے بعد ریاست کی شہریت کا قانون بھی ختم ہو جائیگا۔

دفعہ 370 کی صرف ایک شق کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے تحت صدر ِمملکت‘تبدیلی اور حکم جاری کرنے کا مجاز ہوگا۔ اس کے علاوہ ریاست کے داخلہ امور‘ وزیر اعلیٰ کی بجائے وفاقی وزیرِ داخلہ کے تحت آجائیں گے جنہیں وہ لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے چلائے گا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے کمال مہارت سے سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نام نہاد آئین و قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے یہ اقدام کیا ہے۔جس سے نام نہاد جمہوریت پسندوں اوربھارتی جمہوریت اور سیکولرازم کے گیت گانے والوں کے منہ پر بھی طمانچہ پڑاہے۔ آئینی طور پرجموں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی منظوری کی بغیر بھارتی آئین کی دفعہ 370 میں کسی بھی طرح کی تبدیلی نہیں کی جا سکتی تھی۔ جسے ایک صدارتی حکم کے تحت ریاستی اسمبلی کی جگہ گورنر کی منظوری سے تبدیل کر دیا گیا اور پھر مرکز ہی کی طرف سے تعینات گورنر سے مشاورتی منظوری لینے کے بعد صدرِمملکت نے بھارتی آئین کی دفعہ 370 میں تبدیلیوں کی تجویز پر دستخط کر دیئے۔

بھارتی وزیرِداخلہ امیت شاہ نے بھارتی ایوان بالا (راجیہ سبھا)میں یہ تجویز پیر کے روز پیش کی جس پرصدر مملکت پہلے ہی دستخط کر چکے تھے۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود اکسٹھ ووٹوں کے مقابلہ میں ایک سو پچیس ووٹ حاصل کرتے ہوئے حکومت نے یہ تجویز ایوان بالا سے منظور کر وا لی ہے۔ جبکہ ایوان ِزیریں میں اس تجویزکو پاس کروانے کیلئے بھارتیہ جنتا پارٹی کو کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

بی جے پی حکومت نے مذکورہ بالا اقدام اٹھانے سے قبل ریاست جموں کشمیر میں ہفتہ اور اتوار کے روز بتدریج کرفیو جیسی صورتحال قائم کر لی تھی۔ جس کے تحت ریاست میں موجود تمام غیرریاستی افراد، سیاحوں، طالبعلموں اورمزدوروں کو ہنگامی بنیادوں پر ریاست سے نکال دیا گیا اور فوج کی اضافی نفری تعینات کر لی گئی۔ تمام تعلیمی ادارے بند کرتے ہوئے ہاسٹل خالی کروا دیئے گئے اورمقامی پولیس سے تمام اختیارات واپس لیتے ہوئے ریاستی پولیس کو غیر مسلح کر دیاگیا۔ تمام علیحدگی پسنداور ہند نواز قیادت کو نظر بند کرتے ہوئے انٹرنیٹ و موبائل سروس کو معطل کر دیاگیا۔ بھارتی حکومت کے ان اقدامات کے باعث ریاست بھر میں ایک ہیجان کی کیفیت موجود تھی، سیاسی قیادتوں کو یہی تشویش تھی کہ بھارتی حکومت کے اقدامات کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں اور وہ طوفان بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے سمیت ریاست کی تقسیم پر منتج ہو سکتا ہے۔ پھر آخر کار پیر کے روزبھارتی راجیہ سبھا میں ایسی ہی صورتحال سامنے آئی۔

آرٹیکل 370 کے تحت ریاستی شہریوں کوحاصل اختیارات

تقسیم ِبرصغیر کے وقت ریاست جموں کشمیر کے حکمران راجہ ہری سنگھ نے پہلے تو خودمختار رہنے کا فیصلہ کیا تاہم بعدازاں مشروط طور پر انڈیا سے الحاق پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ اس صورتحال میں انڈیا کے آئین میں شق 370 کو شامل کیا گیا جس کے تحت جموں کشمیر کو خصوصی درجہ اور اختیارات دیے گئے۔ تاہم ریاست کی جانب سے علیحدہ آئین کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ جس پر 1951ء میں وہاں ریاستی آئین ساز اسمبلی کے قیام کی اجازت بھی دے دی گئی۔ بھارتی آئین کی شق 370 عبوری انتظامی ڈھانچے کے بارے میں ہے اور یہ دراصل مرکز اور ریاست جموں کشمیر کے تعلقات کے خدوخال کا تعین کرتی ہے۔ یہ آرٹیکل ریاست جموں کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتا تھا۔

ریاست جموں کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اوربھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی اس پر پانچ ماہ کی مشاورت کے بعد اسے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت انڈیا کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں ان کا اطلاق ریاست جموں کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ریاست کو اپنا آئین بنانے اورالگ پرچم رکھنے کا حق حاصل تھا اورانڈیا کے صدر کے پاس اس آئین معطل کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔ اس آرٹیکل کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر کسی قانون کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی ریاست میں یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے تاہم آرٹیکل 370 کے تحت انڈین حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت اس میں شامل کیا جانے والا آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہو گیا ہے جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل شہری پہچان ہوتی تھی اور خصوصی حقوق ملتے تھے۔ اس قانون کی رو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا اور نہ ہی یہاں سرکاری نوکری حاصل کرسکتا اور نہ ہی آزادانہ طور سرمایہ کاری کر سکتا تھا۔ تاہم اب کسی بھی انڈین شہری کو یہ تمام حقوق حاصل ہوں گے۔

یہ قانون خاص طورپر بھارتی سرمایہ داروں اورکارپوریٹ سیکٹر کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا جس وجہ سے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے بھی الیکشن مہم میں خصوصی طور پر اس آرٹیکل کے خاتمے کا وعدہ کر رکھا تھا۔ جبکہ مودی کی مادری تنظیم ’آر ایس ایس‘ ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو اپنا قومی فریضہ گردانتی رہی ہے۔

یہ قوانین ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927ء سے 1932ء کے درمیان مرتب کیے تھے جنہیں 1954ء میں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے آئین ِہند میں شامل کر لیا گیا تھا۔ کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ آئین ِہند میں موجود یہ حفاظتی دیوار گرنے سے وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے۔ کیونکہ غیر مسلم آبادکاروں کی کشمیر آمد سے ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قبضہ کیا جائے گا۔ یہ خدشہ صرف کشمیر کے علیحدگی پسند حلقوں تک محدود نہیں بلکہ ہند نواز سیاسی حلقے بھی اس دفعہ کے بچاؤ میں پیش پیش رہے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کو تقسیمِ برصغیر کے فوری بعد ہی اسی نوعیت سے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ جس میں ایک حصے کو براہ راست مرکز کے کنٹرول میں رکھتے ہوئے ’ایف سی آر‘ جیسے کالے قوانین اس پر لاگو کر دیئے گئے۔ جبکہ دوسرے حصے پر ایک قانون ساز اسمبلی قائم کردی گئی جسے مرکز کاایک وزیرکنٹرول کرتا تھا۔ بعد ازاں وزارتِ امورِ کشمیر و گلگت بلتستان کا قیام عمل میں لایاگیا اور بتدریج گلگت بلتستان کو بھی ایک صوبائی طرز کی اسمبلی کے قیام جیسے اختیارات تفویض کر دیئے گئے۔ لیکن باشندہ ریاست قانون کو گلگت بلتستان سے بھی عملاً ختم کر دیا گیا تھا۔ یہاں پاکستانی مرکز کے قوانین کا اطلاق، اداروں کی رسائی اورزمینوں کی غیرریاستی باشندوں کو الاٹمنٹ جیسے اقدامات پہلے سے جاری ہیں۔ جبکہ دوسرے حصے میں قائم قانون ساز اسمبلی کے پاس بھی مرکز کی منظوری کے بغیر قانون سازی کے اختیارات موجودنہیں ہیں۔

سیاسی قیادتوں کا موقف اور احتجاج کی نوعیت

آئینی تبدیلی کے اقدام کے خلاف نہ صرف بھارتی زیر ِانتظام کشمیر کی ہند نواز و علیحدگی پسند قیادتوں نے شدیدغم و غصہ کا اظہار کیا ہے بلکہ بھارتی کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) نے بھی سات اگست سے احتجاجی تحریک کا اعلان کر رکھا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر میں بھی سرکاری سطح پر احتجاج کی کال دی گئی ہے۔ جو ظاہر ہے صرف اُس پار کے جبر کے خلاف ہی کیا جائے گا۔

اگر بھارتی زیرِانتظام جموں کشمیر کی صورتحال کو دیکھا جائے تو ماضی میں بھارتی قبضے کے خلاف ابھرنے والی تحریک اپنے جارحانہ کردار کے باوجود وادی کشمیر کے چند اضلاع تک ہی محدود رہی ہے۔ جموں اور لداخ میں اس تحریک کی جڑیں کبھی بھی مضبوط نہیں ہو سکی ہیں۔

مختلف نسلی، جغرافیائی، علاقائی اور ثقافتی شناخت رکھنے والی قومیتوں پر مشتمل ریاست جموں کشمیر کوماضی میں بھی شخصی حکومت کے جبر تلے جوڑ کر رکھا گیا تھا جبکہ تقسیم کے بہتر سال بعد بھی نہ تو بھارتی زیر انتظام جموں، کشمیر اور لداخ کے لوگ اس جبراً اکٹھ کو قبول کر سکے ہیں نہ ہی پاکستانی زیر انتظام کشمیر و گلگت بلتستان کے لوگوں میں اس طرح کا اشتراک پیدا ہوسکا ہے۔ نہ ہی اس طرح کی جڑت دونوں ریاستوں کے مفاد میں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بہتر سال بعد بھی منقسم حصوں میں کوئی بھی مشترکہ تحریک یا آواز ابھر کر سامنے نہیں آسکی ہے۔ بھارتی زیر ِانتظام کشمیر کے تینوں حصوں میں اگر کسی نقطہ پرسیاسی جڑت نظرآئی ہے تو وہ بھارتی یونین میں ان کی خصوصی حیثیت ہی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو دیگربھارتی ریاستوں یا یونین ٹیریٹریز کی نسبت زیادہ مراعات یافتہ گردانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے کی جانیوالی موجود ہ آئینی ترامیم اور ریاست کی نیم خودمختار حیثیت کے خاتمے کے بعدتینوں حصوں میں ایک مشترکہ تحریک کے ابھرنے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ لیکن موقع پرست اورنظریات سے عاری قیادتیں آج بھی منقسم ریاست جموں کشمیر کے باسیوں کو مستقبل کا راستہ دکھانے سے عاری ہیں‘ جس کی واضح مثال حالیہ آئینی ترمیم کے بعد سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا پاکستان کے ساتھ الحاق کو بہتر قرار دینا اور علیحدگی پسند قیادت کا اقوام متحدہ، عالمی برادری اور’او آئی سی‘ جیسے اداروں سے مدد کی اپیلیں کرنا ہے۔

ریاست جموں و کشمیر کے منقسم حصوں میں بسنے والے انسانوں کی آزادی کا راستہ کسی بھی صورت سامراجی اداروں اور خطے کی دوسری سرمایہ دارانہ ریاستوں کے دروازوں سے ہو کر نہیں گزرتا۔ سامراجی معاہدوں، سفارتکاریوں اور دیگر منافقتوں کے ذریعے حاصل ہونے والی آزادیوں کی مثالیں ہمارے سامنے پاکستان اور بھارت سمیت بے شمار موجودہیں۔

آج برصغیرپاک و ہند میں بسنے والے محنت کش اور مظلوم طبقات کے مسائل اوراذیتیں کسی طور بھی کشمیر کے باسیوں سے کم نہیں ہیں اور ان اذیتوں اورتکالیف کے موجب حکمران طبقات بھی ایک ہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے اداروں کے خاتمے کے بغیر نہ تو ریاست جموں کشمیر کے باسیوں کی زندگیوں کو لاحق اذیتوں سے نجات دلائی جا سکتی ہے نہ ہی برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد بے بس اور لاچار انسانوں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

اس لئے بھارت و پاکستان کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جڑت قائم کرتے ہوئے اس خطے سے سرمایہ داری نظام کے خاتمے اور خودمختار ریاستوں کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کیلئے فیصلہ کن لڑائی کو منظم کرنے کے علاوہ کشمیر کے باسیوں کے پاس آزادی حاصل کرنے کا اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔